نامِ پاکستان اک تحریک اک جذبہ تو ہے- ارض دعا
سر برہنہ ہوں مگر سر پر خنک سایہ تو ہے
اپنے ہونے کا مجھے احساس اب ہوتا تو ہے
مطمئن ہوں مسخ ہوتی ساعتوں کے باوجود
آئنہ خانے میں میرا بھی کوئی چہرہ تو ہے
کیوں نہ اپنے خون سے چادر تحفظ کی بُنوں
میرا گھر اجداد کا اک قیمتی ورثہ تو ہے
جانتی ہے تو ہوائے صبحِ گلزارِ وطن
میری ہر اک سانس میں تیرا بدن مہکا تو ہے
جاں نثاری کی نئی تاریخ کے اوراق ہیں
تختیوں پر میرے بچوں نے یہی لکھّا تو ہے
بھول جائیں ہم کڑے ایام کی سب تلخیاں
ظلمتوں کی کوکھ سے سورج نیا ابھرا تو ہے
سنگباری کو گل افشانی کہوں گا ہم نفس
ٹوٹ کر اہلِ چمن کو میں نے بھی چاہا تو ہے
مسکراتی روشنی پہ گھر کی بنیادیں اٹھیں
رات کے پچھلے پہر یہ خواب سا دیکھا تو ہے
پھول کھل اٹھتے ہیں زندہ باد کے چاروں طرف
نامِ پاکستان اک تحریک اک جذبہ تو ہے
طاقِ احساسات میں چاروں طرف اے ہمنشیں
عشقِ سرکارِ دو عالمؐ کا دیا جلتا تو ہے
نرگسیت سے نکل کر جرمِ بینائی کریں
زندگی کا قرض دانائی کا اک لمحہ تر ہے
کون اربابِ سیاست کو یہ سمجھائے ریاضؔ
یہ شکستہ سا مکاں، جیسا بھی ہے اپنا تو ہے