ہوائے صبحِ انقلاب- ارض دعا

اسلام کی شوکت کا پرچم لہرانے کے دن پھر آئے ہیں
باطل کے بپھرتے طوفاں سے ٹکرانے کے دن پھر آئے ہیں

ہم گرچہ عاجز بندے ہیں، من پاپی ہے تن گندے ہیں
کچھ کیجئے خدا کی شاہی کو منوانے کے دن پھر آئے ہیں

سوکھی ہوئی کھیتی پر رم جھم، اب ابرِ مدینہ برسے گا
تذکارِ نبیؐ سے سینوں کو گرمانے کے دن پھر آئے ہیں

ملت کے مقدر کا تارا، ہر ایک افق پر چمکے گا
تاریخ کی بند کتابوں کو دہرانے کے دن پھر آئے ہیں

سر رکھ کے ہتھیلی پر آنا، دیوانو! شہادت گاہوں میں
اس کرب و بلا کی وادی میں شکرانے کے دن پھر آئے ہیں

امید جھروکے کھولے گی یہ خاموشی بھی بولے گی
خود اپنے لہو کو گردش میں لے آنے کے دن پھر آئے ہیں

ہر فرد ریاضؔ قبیلے کا، ابوابِ شجاعت لکھّے گا
اُس عظمتِ رفتہ کو واپس لوٹانے کے دن پھر آئے ہیں