درِ نبیؐ سے پلٹ نہ آنا، کچھ ایسا بھی اہتمام کرنا- زر معتبر (1995)
درِ نبیؐ سے پلٹ نہ آنا، کچھ ایسا بھی اہتمام کرنا
ریاضؔ جتنی بھی ساعتیں ہیں حیات کی اُنؐ کے نام کرنا
چراغ جلتے ہیں شام ہوتے ہی آرزو کے دل و نظر میں
اگر ہو ممکن تو وادیٔ جاں کی رہگذر میں قیام کرنا
ہوا سے سرگوشیوں میں کہنا چلا ہوں بامِ فلک کو چھونے
مجھے ہے رستے کے ہر شجر سے ٹھہر ٹھہر کر کلام کرنا
برستی آنکھو، خیال رکھنا، بہت ہے نازک فضائے طیبہ
مدینہ آئے تو چپکے چپکے درُود پڑھ کر سلام کرنا
مہک رہا ہے مِرے نبیؐ کے بدن کی خوشبو سے انکا دامن
مدینے کے ہر گلی محلّے کا لازماً احترام کرنا
درُود کتنے سلام کتنے سپردِ باد صبا کئے ہیں
میں روسیہ شہرِ ہجر میں ہوں، قبول نذرِ غلام کرنا
یہ سوچتا ہوں کہ اور اب کیا خدائے ارض و سما سے مانگوں
جب اُس نے قسمت میں لکھ دیا ہے ثنائے خیر الانامؐ کرنا
بڑی اُداسی سی عصرِ نو میں بہارِ ہستی پہ چھا رہی ہے
شعورِ حُبِ نبیؐ کی دولت، جہانِ نفرت میں عام کرنا
ریاضؔ جس دن، ریاضؔ جس شب ثنا کے پھولوں سے گھر نہ مہکے
ریاضؔ وہ دن عذاب لکھا، ریاضؔ وہ شب حرام کرنا