عزمِ نو- ارض دعا
ہوائے تند سے کہنا سنبھل سنبھل کے چلے
چٹان بن کے کھڑے ہم رہیں گے موجوں میں
ہم اپنی کشتِ عمل میں چراغ بوئیں گے
اگیں گے چاند ستارے ہمارے ہاتھوں میں
یقیں کا ہاتھ سے دامن نہ چھوٹنے پائے
فریب و دجل کا سایہ بدن سے نکلے گا
تمام لوگ قبیلے کے حوصلہ رکھیں
یہ اضطراب کا موسم ضرور بدلے گا
صلیبِ جرم ضعیفی پہ کب تلک رہتے
غبارِ خوف سے دامن چھڑا کے آئے ہیں
اتار پھینکے ہیں ہم نے بھی بزدلی کے کفن
نئے دنوں کے نصابوں کو ساتھ لائے ہیں
بڑھے گا جانبِ طیبہ یزید کا لشکر
قدم قدم پہ نئی کربلا سجائیں گے
حضورؐ، آپؐ سے وعدہ ہے ہم غلاموں کا
ہم اپنے اپنے لہو کے علَم اٹھائیں گے
خدا کے نام کا تیشہ اٹھا کے مقتل میں
کسی کے جبر کی دیوار توڑ ڈالیں گے
زمیں پہ جھوٹے خداؤں کی ہر خدائی میں
انائے شر کی کلائی مروڑ ڈالیں گے