14 اگست- ارض دعا
اپنی زمیں کا قرض چکانے کا دن ہے یہ
تاریخ کو گواہ بنانے کا دن ہے یہ
یہ دن طلوع ہوتا ہوا آفتابِ نو
شامِ قفس کے نقش مٹانے کا دن ہے یہ
صدیوں کا اک عظیم سفر طے ہوا تھا آج
دیوارِ جان و دل کو سجانے کا دن ہے یہ
آثارِ صبحِ نو کی بھی توثیق کیجئے
بیداریوں کا جشن منانے کا دن ہے یہ
جمہوریت کے صحنِ چمن میں روش روش
دیوارِ شامِ جبر گرانے کا دن ہے یہ
یہ دن گلاب رت کی امانت ہے اس لیے
چہرے کی ہر شکن کو مٹانے کا دن ہے یہ
نظروں سے ایک لمحہ بھی اوجھل نہ ہو کبھی
آنکھیں ہتھیلیوں پہ سجانے کا دن ہے یہ
اندر کی روشنی ہی سے ملتا ہے اعتماد
اپنے لہو میں دیب جلانے کا دن ہے یہ
مانگو خدا سے اپنے وطن کی سلامتی
شاخِ دعا پہ پھول کھلانے کا دن ہے یہ
بستی کے ہر مکین میں تقسیم ہوں گلاب
آنگن میں خوشبوؤں کو بسانے کا دن ہے یہ
اے وارثانِ قائدؒ و اقبالؒ، عدل پر
بنیاد اپنے گھر کی اٹھانے کا دن ہے یہ
یہ بیسویں صدی کا ہے سب سے عظیم دن
گھر گھر نئے چراغ جلانے کا دن ہے یہ
نیلام کرچکے ہیں ہم اجداد کے کفن
آنسو ندامتوں کے بہانے کا دن ہے یہ
ہم اس عظیم ملک کے قابل نہ تھے ریاضؔ
اس مفلسی کا سوگ منانے کا دن ہے یہ