ہم ہی مجرم ہیں- ارض دعا

خود اپنی خاک اڑانے کے ہم ہی مجرم ہیں
دیے تمام بجھانے کے ہم ہی مجرم ہیں

ہوا کے ہاتھ میں ماچس کی تیلیاں دے کر
وطن میں آگ لگانے کے ہم ہی مجرم ہیں

کسی کی جنگ کو اپنی ہی جنگ کہتے ہیں
کسی کا بوجھ اٹھانے کے ہم ہی مجرم ہیں

یزیدِ وقت کو لاتے نہیں کٹہرے میں
سو اس کا جرم چھپانے کے ہم ہی مجرم ہیں

تمام جھیل کا پانی غنیم پی جائے
زمیں سے بھوک اگانے کے ہم ہی مجرم ہیں

خدائے وقت کی انگلی کے اک اشارے پر
ادب سے ہاتھ اٹھانے کے ہم ہی مجرم ہیں

ضمیر مردہ کو اخبار کا کفن دے کر
قلم کے دام چکانے کے ہم ہی مجرم ہیں

کھڑے ہیں اس لیے تاریخ کی عدالت میں
کتابِ عدل چرانے کے ہم ہی مجرم ہیں

ہزار سال میں آباء نے جو بنائے تھے
نگار و نقش مٹانے کے ہم ہی مجرم ہیں

عجیب لوگ ہیں دشمن سے مل رہے ہیں گلے
فریب شوق سے کھانے کے ہم ہی مجرم ہیں

سجود جھوٹے خداؤں کو کررہے ہیں ریاضؔ
جبینِ عشق جھکانے کے ہم ہی مجرم ہیں