سرورق- خون رگ جاں
خونِ رگِ جاں
ریاض حسین چودھری
ملنے کا پتہ
چودھری سنز، ریلوے روڈ سیالکوٹ
(جملہ حقوق بحق مصنف محفوظ ہیں)
مصنف محمد ریاض حسین چودھری، ایم اے ایل ایل بی
تقریبِ اشاعت یومِ دفاعِ پاکستان
کتابت ارشاد احمد خوشنویس
مطبع زمزمہ پرنٹنگ پریس مغل مارکیٹ سیالکوٹ
پرنٹر محمد نذیر قریشی
پبلشر محمد ارشد چودھری
تعداد اشاعت 500
پہلی اشاعت ستمبر 1971ء
خونِ رگِ جاں
یوں تو ریاض حسین چودھریؒ کا پہلا نعتیہ مجموعہ ’’زرِ معتبر‘‘ 1995ء میں شائع ہواجو کہ 1985ء تک لکھے ہوئے کلام پر مشتمل ہے۔ تاہم اب ان کے شعری اور ادبی ارتقا پر تحقیق شروع ہوئی ہے تو ان کی فائلز، خطوط، اور ڈائریز دیکھنے کا اتفاق ہوا ہے۔ ریاضؒ نے شعر کہنا اپنے اوائل تعلیمی دور ہی میں شروع کر دیا تھا۔ بچوں کے جرائد میں باقاعدگی سے لکھتے رہے۔ ٓسی ضیائی صاحب کا تلمذ حاصل ہوا۔ تو ان کے تخلیقی جوہر نمایاں ہو نے لگے۔ مادرِ وطن کی محبت ان کے وجود کے ذرے ذرے میں متجلّی تھی ۔ 1971 کا پاکستان کے دو لخت ہونے کا عظیم سانحہ برداشت نہ کر سکے اور طویل ملّی نظمیں لکھنے لگے۔
پڑتال میں ان کے 1971ء كے مطبوعہ كلام ’’خونِ رگِ جاں‘‘ کا ایک بوسیدہ سا نسخہ ہاتھ لگا۔ 48 صفحات پر مشتمل ملّی نظموں کا یہ مختصر شعری مجموعہ ستمبر 1971ء میں یومِ دفاعِ پاکستان کے موقع پر 500 کی تعداد میں شائع ہوا تھا۔ مگر جو ایک نسخہ ملا وہ بھی چالیس صفحات تھے اور آٹھ صفحات کم تھے جو بعد میں تلاش کر لئے گئے۔ریاضؒ کے برادرِ عزیز محمد امجد چودھری صاحب نے بتایا کہ وہ اس روز اس قدر جوش میں تھے کہ شام تک اس کی ساری کاپیاں تقسیم کر چکے تھے۔ اس کا پیش حرف اور منظوم دیباچہ 18 نومبر1970ء کو جناب آغا صادق (پروفیسر سید صادق حسین صادق) کا لکھا ہوا ہے۔ آغا صادق اردو ادب کا ایک بڑا نام ہے۔ ان کے ساتھ ریاض حسین چودھریؒ کا رابطہ اکثر رہتا۔ اس کتابچے کے دوسرے ہی صفحے پر ایک صفحے کا تعارف چھپا ہوا ہے جسے کوئی عنوان نہیں دیا گیا۔ یہ چودھری صاحب کے اس زمانے کے سب سے پیارے دوست جناب محمداقبال منہاس صاحب مرحوم کی انتہائی دلآویز تحریر ہے۔ان دونوں حضرات کی تحریروں سے ریاضؒ کے اوائل دور کی ذہنی اٹھان ، ادبی ذوق کی جہات اور اُس نفیس اور اخلاص کے پانیوں سے دھلے ہوئے مدحت نگاری کے لب و لہجے کے ابتدائی خد و خال ملتے ہیں جو بعد میں ساٹھ ہزار سے زائد اشعار لکھ کر اور ہر صنفِ شعر کا دامن ستائشِ رسولؐ کےزرِ معتبر، رزقِ ثنا ، اور متاعِ قلم سے مرصّع کر کے ایسا دبستانِ نو تخلیق کر گئے جو آنے والے نعت نگاروں کے لئے حرف و بیاں کی اگلی صدی کا پیش رو کلام ہے۔