جواب استغاثہ- خون رگ جاں
(بارگاہِ رسالت مآبؐ سے)
کس کے آوارہ تخیل میں ہے سوزِ انفعال
کس نے اشکوں کی زباں میں ہم سے پوچھا ہے سوال
کون فریادی ہے کس نے دی ہے دستک بارہا
کون ارضِ پاک میں افسردہ ہے غم سے نڈھال
کس کے نالوں سے ہماری آنکھ پُرنم ہو گئی!
کس کے نالے ہیں حقیقت میں رگِ گل کی مثال
کس نے دکھلائی ہے تصویرِ زیاں اشعار میں
کاش وہ بھی دیکھ سکتا گردشِ دوراں کا حال
ہم اگرچہ خوش ہوئے اس جرأتِ اظہار پر
لیکن آدابِ جنوں پیشِ نظر! اے باکمال
اب بھی آتی ہے ہمیں ٹھنڈی ہوا اس دیس سے
لیکن اب صر صر کے جھونکوں سے ہے اس کا اشتمال
کون علم الدیںؒ کا دل سینے میں رکھتا ہے یہاں
مسجدوں میں دندناتے پھر رہے ہیں راجپال
بے حسی کو مت چھپا مظلومیت کی آڑ میں
زہرِ قاتل ہے یہی احساس، ملت کا زوال
اک تمہیں تو شاکیٔ تقدیر ہوکر رہ گئے
بتکدوں کے یہ پجاری دیکھ کیا چلتے ہیں چال
غیر کے ٹکڑوں پہ پلنا ہے طریقِ کوہکن؟
زندگی مردِ مسلماں کی سرا سر ابتذال
غیر کی امداد کے طالب نہ تم ہوتے کبھی!
کچھ بھی ناموسِ پیمبر کا اگر ہوتا خیال
کس نے سرمائے کے بیٹوں کو بنایا ہے خدا
راس آسکتا نہیں جن کو کبھی کسبِ حلال
مصلحت کی پاؤں میں زنجیر ہو پہنے ہوئے
گھٹ کے رہ جاتا ہے مجبوری سے سینوں کا ابال
جو کبھی تھے رہنما اقوامِ عالم کے یہاں
اُن حدی خوانوں کی نخلستان میں بگڑی ہے چال
زخم خوردہ ہے فصاحت آج عربوں کی اگر
سوچ پر پتھر پڑے فکرِ عجم بھی پائمال
عقل انساں کو لیے پھرتی ہے تاروں پر مگر
عقل کےہاتھوں ہی بگڑے ملّتوں کے خدوخال
مدرسوں اور خانقاہوں میں فقط رقص و سرود،
دین و ایمان کو نگل جائے گا اِن کا اشتغال
عصمتوں کی پاسداری کا سلیقہ ہی نہیں!!!
غیرتوں، خوداریوں کو رکھ دیا ہے یرغمال
بنتِ حوّا کو تو چوراہے پہ عُریاں کر دیا
کس نے جذبوں کو دیا محفل میں رنگِ اشتعال
روحِ شبیری نہیں اور سنتِ قرنیؓ نہیں
رزم گاہِ عشق و مستی میں وہی شامِ قتال
نسلِ آدم خوں چکانی کی علامت بن گئی!
روزِ اول ہی فرشتوں کو یہی تھا احتمال
مسجدِ اقصیٰ کے میناروں سے اٹھتا ہے دھواں
جانتے ہیں ہم کہ ہے ارضِ فلسطیں پر ملال
ہے بجا کشمیریوں پر ظلم کے ٹوٹے پہاڑ
اور قبرص کے مسلمانوں کا جینا ہے وبال!!
بات کر لینا بہت آسان ہے لیکن ذرا
قوتِ خیبر شکن کی ہے کوئی تم میں مثال
بازوئے خالدؓ کی عظمت کے تمہی وارث تو تھے
کاش اپنی قوتوں کو آج بھی کر لو بحال
ہاں فقط جوشِ عمل میں منزلوں کا ہے سراغ
بے بسی، کم ہمتی ، دونوں دل و جاں کا وبال!
مغربی تہذیب کے اس کھوکھلے پن سے نکل
اپنی قدروں پر بھروسہ کر یہی ہیں لازوال
ڈھونڈ لے صدیقِ اکبرؓ کے سراغِ نقشِ پا!
جذبۂ فاروقِ اعظمؓ کو رگ و پے میں اچھال
ہمیں لہو سے سحر کو کریں گے تابندہ!
چمن بھی مانگی بہاروں کا منتظر نہ رہے
-
اے حدیثِ عشق و مستی کے مفسرالسلام
-
ھلالِ استقلال
-
شکارِ مصلحت
-
مجھے مرہم بھی بننا ہے
-
صیاد کے دامن کا دھواں میری غزل ہے
-
یومِ مسجدِ اقصیٰ