اذنِ حضوری پا کر- زر معتبر (1995)
وہ شب کے پچھلے پہر مچل کر
ورق پہ سرو و سمن بنانا
پیام دینا صبا کو لکھ کر
چراغِ عشقِ نبیؐ جلانا
وہ سوزِ اُلفت میں جلتے رہنا
وہ شہرِ ہجرِ نبیؐ کی راتیں
وہ دل کی بے تابیوں کا حاصل
وہ گفتگو وہ حسین باتیں
وہ آنسوؤں کے بنا کے گجرے
سُپردِ بادِ شمیم کرنا
وہ چاند کی چاندنی کو شب بھر
غبارِ شہرِ عظیم کرنا
کِسی نے چُپکے سے کہہ دیا ہے
حضورؐ تجھ کو بلا رہے ہیں
تجھے مبارک کہ شاہِ والا
ترا مقدّر جگا رہے ہیں
مُجھے یقیں تھا کہ اک نہ اک دن
مِرا ستارا چمک اُٹھے گا
حضورؐ بھیجیں گے اپنا قاصد
یہ میرا گھر بھی مہک اُٹھے گا
حضُورؐ، اتنا کرم یہ مجھ پر
کہیں ہَوا میں بِکھر نہ جاؤں
کہیں نہ سِینے میں سانس اٹکے
کہیں خوشی ہی سے مر نہ جاؤں
یہ میرا بختِ رسا کدھر ہَے
اِسے مَیں کس آسماں میں ڈھونڈوں
ہر ایک مُوئے بدن ہے رقصاں
میں فرطِ حیرت سے کِس کو چوموں
اِدھر بھی کیف و طُرب کے نغمے
اُدھر بھی خوشیوں کے شادیانے
اِدھر بھی ابرِ کرم کی رمِ جھم
اُدھر بھی رحمت کے شامیانے
غلام زادوں کا یہ گھرانا
حضورؐ، خوشیاں منا رہا ہَے
قدم قدم پر بچھا کے آنکھیں
روش روش کو سجا رہا ہَے
یہ ننّھے مُنّے سے میرے بچّے
سلام کہنے کو کہہ رہے ہیں
مگر ندامت سے سر جھکا ہے
خوشی کے آنسو بھی بہہ رہے ہیں
نہیں یہ اک خواب تو نہیں ہے
اِسے حقیقت ہی جَانتا ہُوں
مگر مَیں مہمان مُصطفےٰؐ کا
مَیں اپنی اوقات جانتا ہوں
بدن کی بنجر زمیں کو آقاؐ
خنک رُتوں کا سحاب دیں گے
برہنہ شاخوں کو مسکرا کر
کرم کے تازہ گلاب دیں گے
مَیں مضطرب دھڑکنیں دکھا کر
سکوں کی دولت سمیٹ لوں گا
درِ نبیؐ سے لگا کے پلکیں
غبار تن پر لپیٹ لوں گا
غریبِ شہرِ وفا کو پل میں
امیرِ ملکِ انا کریں گے
خُدا نے چاہا تو دیکھ لینا
حضورؐ سب کچھ عطا کریں گے
حضورؐ، مَیں بے نوا سا شاعر
عنایتوں کے کہاں ہوں قابل
ندامتوں کے جبیں یہ قطرے
ضمیر زخمی، بدن بھی گھائل
حضورؐ، مَیں کچھ بھی تو نہیں ہُوں
مِرا تو چہرہ بھی بے صدا ہَے
کرم مسلسل کرم کی بارش
حضورؐ، شفقت کی انتہا ہے
حضورؐ، پہیم نوازشوں کا
یہ سلسلہ کچھ دراز کر دیں
رہوں سدا سرمدی سفر میں
مِری ردائے مراد بھر دیں
ذرا ٹھہر جانا میرے سَاتھی
سخنوری کا علَم تو لے لوں
ہَے رازداں میری خلوتوں کا
مَیں ساتھ اپنا قلم تو لے لوں
سجا کے طشتِ ہنر میں آنسو
دیارِ رحمت کو چل پڑے ہیں
ہر ایک طاقِ دل و نظر میں
چراغ مدحت کے جل رہے ہیں