حضورؐ حاضر ہے ایک مجرم- زر معتبر (1995)
حضُورؐ حاضر ہَے ایک مجرم، حضورؐ اِس کو معاف کر دیں
اور اِس کے کشکولِ آرزُو کو کرم کے سکّوں سے آج بھر دیں
یہ ہجرتوں کے اُگا کے موسم، حضورؐ لایا ہے کشتِ غم میں
یہ عافیّت کی تلاش میں ہے اِسے مدینے میں ایک گھر دیں
حضورؐ اِس کی جبیں پہ نقشِ قدم کا سُورج اتار دیجے
یہ مدتوں سے بھٹک رہا ہے اِسے سکون و قرار دیجے
یہ کب سے نوحہ کناں ہے صحنِ بدن کے اُجڑے ہوئے چمن میں
حضورؐ دستِ خزاں میں ہے یہ اِسے ردائے بہار دیجے
حضورؐ، یہ بے نوا سا شاعر، غلام زادوں کا ترجماں ہَے
حضورؐ، دامن تہی ہَے اِس کا، یہ بے ہنر گردِ کارواں ہَے
حضورؐ، جائے تو اٹھ کے جائے کہاں غریب الوطن یہ آخر
حضورؐ، یہ عصرِ ناروا ہَے حضورؐ، یہ عہدِ بے اماں ہَے
سجا کے لایا ہے طشتِ جاں میں ثنا کی کلیاں قبول کیجئے
اور اس کے ہاتھوں سے آنسوؤں کے گلابِ تازہ وصُول کیجئے
یہ لوحِ دل پر بنا رہا ہے، درِ محبت کے عکس آقاؐ
یہ سر جھکائے کھڑا ہے کب سے اسے بھی قدموں کی دُھول کیجئے
حضُور آقاؐ، یہ آپؐ کی جالیوں سے نظریں چرا رہا ہَے
گنہ کا احساس اس قدر ہے یہ خوف سے تھرتھرا رہا ہَے
زباں پہ تالے پڑے ہُوئے ہیں قدم بھی اُٹھتے نہیں ہیں اس کے
ستوں کے پیچھے یہ سب سے چھُپ کے حضورؐ آنسو بہا رہا ہَے
رہے سلامت حضُور آقاؐ، غلام زادوں کا آشیانہ
تنا رہے اِس کے بام و در پر کرم کا، رحمت کا شامیانہ
یہ کہہ رہا ہے سلام کہتے تھے ننّھے مُنّے سے میرے بچّے
سلام کہتی تھیں سَب کنیزیں، نثار ہوتے تھے اہلِ خانہ
یہ کہہ رہا ہے سلام کہتی تھیں گنگناتی ہُوئی ہَوائیں
ادب سے سر کو جھُکا جھُکا کر دُرود پڑھتی تھیں فاختائیں
یہ کہہ رہا ہے سلام کہتا تھا ذرہ ذرہ مِرے وطن کا
حضورؐ مقبول ہوں ریاضِؔ حزیں کی ساری ہی اِلتجائیں