مجھے مرہم بھی بننا ہے- خون رگ جاں
کہیں وتنام اور قبرص میں زنجیریں چھنکتی ہیں
کہیں انصاف کے پھندے میں تقدیریں سسکتی ہیں
کہیں کشمیر کے مقتل میں ہیں انصاف کے قصے
کہیں قانون کی روح و بدن کے ہو گئے حصے
کہیں تہذیب کی گلکاریوں نے رنگ بکھرائے
کہیں مزدور پر سرمایہ داری کے پڑے سائے
کہیں دولت کے پلڑوں میں تُلی ہے عظمتِ حوّا
کہیں دم توڑتی ہے غربتوں میں عصمتِ حوّا!
کہیں تاریکیاں ہیں منتظر نادیدہ سورج کی
کہیں اجلی سحر مشتاق ہے خوابیدہ سورج کی
کہیں روڈیشیا میں خونِ انساں کی ہے ارزانی
کہیں جمہور کے گھر میں لٹا جمہورِ سلطانی!
کہیں عربوں کے سینے میں گڑا ہے ظلم کا خنجر
کہیں انساں کے چہرے پر تنی ہے خوف کی چادر
میں انساں ہوں یہ انسانوں کے چہرے زرد میرے ہیں
یہ سارے زخم میرے ہیں یہ سارے درد میرے ہیں
مجھے مرہم بھی بننا ہے مجھے نشتر بھی بننا ہے