جدید اردو نعت کی صورت پذیری کا موسم- نعت کے تخلیقی زاویے

(نعت رنگ، شمارہ 17)

بیسویں صدی کا اختتام اور اکیسویں صدی کا آغاز کائنات نعت میں اظہار و ابلاغ کے نئے آفاق کی تسخیر کے عزم نو اور ولولۂ تازہ سے ہوا ہے۔ اس تخلیقی، تہذیبی اور وجدانی سفر کے ابتدائی مراحل ہی میں تفہیمِ نعت کے امکانات کی نئی دنیائوں کی دریافت کے آثار دکھائی دینے لگے ہیں، افقِ دیدہ و دل پر جدید احساسِ نعت کا بھرپورطلوع ان امکانات کو واضح اور روشن کررہا ہے۔ روحانی رتجگوں کا یہ موسمِ دلکشا لوح و قلم کے گرد نور کے ان گنت ہالوں کی صورت پذیری پر مامور نظر آتا ہے، بیسویں صدی کے ا ٓخری عشرے میں لکھے جانے والی نعت دراصل اکیسویں صدی کی جدید نثر اردو نعت کے منشور کا ابتدائیہ ہے، نعت میں شعوری اور لاشعوری سطح پر محسوس کی جانے والی انقلابی تبدیلیاں محض ہیٔت کی تبدیلیوں تک ہی محدود نہیں بلکہ فکرو نظر کے الجھے ہوئے زاویہ ہائے نگاہ کی گرہ کشائی کے امکانات بھی حیطۂ عمل میں آرہے ہیں۔ تخلیق کی شاہراہ پر رتجگوں کا یہ ہجوم نئے دن کی روشنیوں کو بھی اپنے دامن میں سمیٹ رہا ہے۔ بیسویں صدی بلاشبہ نعت کی صدی تھی اور اکیسویں صدی بھی نعت ہی کی صدی ہے بلکہ ہر صدی نعت ہی کی صدی ہے۔ آج تک روئے زمین پر ایک بھی ایسی ساعت نہیں اتری جس کی دونوں ہتھیلیوں پر خوشبوئے اسم محمدؐ کے چراغ روشن نہ ہوں، بیسویں صدی کے نصف آخر کو جدید اردو نعت کا سنہری دور کہا جاسکتا ہے۔ وجود مصطفی کے حقیقی اعتراف کی نئی نئی صورتیں آئینہ خانۂ دل میں روشن ہوئیں۔

سیکھی یہیں مرے دل کافر نے بندگی
رب کریم ہے تو تریؐ رہگذر میں ہے

(فیض)

قیام پاکستان کے بعد نعت کی پـذیرائی کے جس سرمدی موسم کا آغاز ہوا تھا وہ سرمدی موسم اب ہر شعبہ زندگی پر محیط نظر آتا ہے۔ قدرتی طور پر ایسا ہونا بھی تھا۔ ادب میں اشتراکیت اور جدیدیت کی تحریکیں نعت کے تخلیقی سفر کو روکنے کی سکت ہی نہ رکھتی تھیں اس لیے کہ نعت کے حوالے سے ہمارے ملی تشخص کی تلاش کا جواز از خود مہیا ہورہا تھا، برطانوی استعمار کا طلسم ٹوٹا تو افق مدینہ سے اٹھنے والے ابرِ کرم نے ہر شے کو اپنے دامنِ رحمت میں سمیٹ لیا۔ جدید اردو نعت نے خنک موسموں کی اس فضا کے دلکش نظاروں میں اپنے تخلیقی سفر کو جاری رکھا۔ یہ تخلیقی سفر جاری ہے اور اس کائنات رنگ و بو کے روزِ آخر تک جاری رہے گا بلکہ روزِ آخر کے بعد بھی، جب تمام مخلوقات موت کی آغوش میں سوچکی ہوں گی اُس وقت بھی ربِ ذوالجلال قائم و دائم ہوگا اور لامکاں کی وسعتیں درود و سلام کے زمزموں سے گونج رہی ہوں گی۔

ہوائیں ماری ماری پھر رہی ہیں
تراؐ نقشِ کفِ پا ڈھونڈنے کو

(احسان دانش)

آج کا مدحت نگار بیک وقت ماضی، حال اور مستقبل میں سفر کررہا ہے اس کا پورا وجود تصویرِ ادب بن کر مکین گنبدِ خضرا کے درِ عطا پر سرنگوں ہے اوراق جاں پر چاند ستارے رقم ہو رہے ہیں۔ آج کے شاعر کی لغتِ عمل کا ہر لفظ سر پر غلامی کا عمامہ باندھے تاجدارِ کائناتؐ کے حلقہ رحمت میں ہے اور اس شرفِ عظیم کے حصول پر کلماتِ تشکر و امتنان اس کے ہونٹوں پر مچل رہے ہیں۔ افکارِ تازہ کا ہجوم اس کی اقلیمِ فکر میں سمٹ آیا ہے۔ اعتماد کا نور اس کے چہرے پر چمک رہا ہے۔ جرأت مندی کا شعور اس کے لفظوں میں رچ بس گیا ہے۔

پورے قد سے جو کھڑا ہوں تو یہ تیراؐ ہے کرم
مجھ کو جھکنے نہیں دیتا ہے سہارا تیراؐ

(احمد ندیم قاسمی

یہ شعر پورے عہد کا نمائندہ شعر ہے جس میں حوصلوں اور امنگوں کے ہزاروں سورج ایک ساتھ چمک رہے ہیں۔ یہ دراصل حبِ رسول کی روشنی ہے اور ہر روشنی حضورؐ کے در کی کنیز ہے۔

پوری تاریخِ جہاں کی روشنی اتنی نہیں
لمحے لمحے میں اجالا جس قدر اُنؐ کا ہوا

(مظفر وارثی)

تحریک پاکستان ہمارے ملی تشخص کی تلاش کا دوسرا نام ہے۔ اردو نعت ہمارے ملی تشخص کی جزئیات تک کو حیطۂ شعور میں لاتی ہے۔ جدید اردو نعت کی صورت پذیری کے موسم کے ہزار رنگ دامنِ شعر میں بکھرے ہوئے ہیں، منظر نامہ سوچ اور اظہار کی رعنائیوں سے معمور ہے۔ نعت اب صرف حضورؐ کے شمائل، فضائل، خصائل اور خصائص تک محدود نہیں بلکہ سیرت اطہر کی روشنی بھی قصرِ توصیف کی فصیلوں پر چراغ جلا رہی ہے۔ ہر شعبۂ زندگی کے جملہ ثقافتوں کے جمالیاتی اظہار نے بھی جدید اردو نعت کے دامنِ صد رنگ میں پناہ تلاش کی ہے۔ خودسپردگی اور وارفتگی کے نئے ذائقوں سے آشنائی ذاتِ مصطفی سے غیرمشروط وابستگی کا مظہر ہے، کوئے پیمبرؐ کی گدائی کا ادراک ایک زندہ اور فعال تحریک کی صورت اختیار کر گیا ہے۔

بے نیازی آپؐ کی وابستگی نے کی عطا
مَیں غنی کوئے پیمبرؐ کی گدائی سے ہوا

(حفیظ تائب)

حضورؐ سے والہانہ عشق کا بے ساختہ اظہار ہر دور کی نعت کا طرۂ امتیاز ہے، رات کے پچھلے پہر جب قلبِ مضطر یاد مدینہ کے آسودہ لمحوں سے ہمکنار ہوتا ہے اور محبت رسول کا سمندر آنکھوں میں سمٹ آتا ہے تو پلکوں پر آنسوئوں کی کناری سی لگنے لگتی ہے۔

ٍ حضورؐ کا دامنِ رحمت اولادِ آدم کے برہنہ سروں پر سایہ فگن ہے۔ بلا تفریق رنگ و نسل اکیسویں صدی کے ساکنانِ کرۂ ارض کو جہانِ نعت میں سانس لینے کا اعزاز حاصل ہے۔ درود و سلام کے پیکر شعری کا نام نعت ہے۔ نعت کائنات ہے اور ہم اس نعت کائنات میں زندہ ہیں۔ چشمِ تصور انگلی پکڑ کر خلد مدینہ میں لے جاتی ہے۔ ہوائے طیبہ سے ہمکلامی کا شرفِ عظیم حاصل ہوتا ہے۔ یہی ہمکلامی نعت کے پیرہن میں سجتی ہے، نعت خوانوں کو حضورؐ کی شفاعت کے دائرہ کرم میں لے جاتی ہے اور ہمارا توشۂ آخرت ٹھہرتی ہے۔

صبا نعتِ رسول پاک اپنے ہاتھ میں رکھو
شفاعت کی سند لے کر چلو دربارِ داور میں

(صبا اکبر آبادی)

روایت کو توڑنا کسی خود ساختہ اجتہادی بصیرت کا نتیجہ نہیں بلکہ اندر کے باغی انسان کی غلط منصوبہ بندی کا شاخسانہ ہے، روایت کا تسلسل برقرار نہ رہے تو تخلیقی سفر کی بہت سی درمیانی کڑیاں ٹوٹ کر جمالیاتی قدروں کے انہدام کا باعث بنتی ہیں۔ اس لیے روایت کے تسلسل کے بغیر سوچ کے مقفل دروازوں پر دستک دینے کا عمل رائیگاں جاتا ہے، لیکن روایت کی گرفت اتنی بھی سخت نہیں ہونی چاہیے کہ جدید حیثیت کے حوالے سے ادب میں تازہ ہوائوں کی آمد ہی رک کر رہ جائے اور لمحہ موجود کے آبگینے ٹوٹ کر خاک میں مل جائیں اور نئی لفظیات کے مرحلہ تخلیق کو جاری ہی نہ رکھا جاسکے۔ جدید اردو نعت کے شاعر کو اپنے عہد کی دانش سے اکتسابِ شعور کا ہنر آتا ہے اور وہ شجر سے پیوستہ رہ کر نئی بہاروں کو خوش آمدید کہنے کا منصب سنبھالتا ہے۔

دنیا میں احترام کے قابل ہیں جتنے لوگ
میں سب کو مانتا ہوں مگر مصطفیٰؐ کے بعد

(قتیل شفائی)

فروغِ اسمِ محمدؐ ہو بستیوں میں منیرؔ
قدیم یاد نئے مسکنوں سے پیدا ہو

(منیر نیازی)

قلم لرزتا ہے نعتِ رسولؐ لکھتے ہوئے
مگر یہ عجز بھی مظہر کسی کمال کا ہے

(شہزاد احمد)

اس بڑھاپے میں زیارت کی، ظفرؔ
ایک خواہش سی جواں ہوتی ہوئی

(ظفر اقال)

ہمارے نام کے آگے بھی حرفِ بخشش لکھ
کہ سرفراز ہوں ہم جب تری کتاب کھلے

(محسن نقوی)

اسی جزوِ نورِ کل سے ہے تابندگی تمام
میں کیوں نہ اس کے سائے کو بھی روشنی لکھوں

(محسن بھوپالی)

بغیر دیدۂ بینا بغیر زاد سفر
مری طرح درِ اقدس پہ کون جائے گا

(اقبال عظیم)

ہماری روح نے تعظیم کی محمد کی
ازل میں مسٔلۂ ہست و بود سے پہلے

(درد اسعدی)

حرا سے سبز گنبد تک مسلسل
سفر اندر سفر ہے اور مَیں ہوں

(ڈاکٹر ابوالخیر کشفی)

بیدل وہ ایک نام جو اخبار میں چھپے
اخبار کا وہ اتنا تراشا بھی روشنی

(بیدل حیدری)

مجھے حیرت ہوتی ہے جب بعض معترضین یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ نعت کو جدید و قدیم کے خانوں میں تقسیم نہیں کرنا چاہیے۔ نعت نعت ہی ہوتی ہے۔ جدید یا قدیم نہیں۔ بلاشبہ نعت نعت ہی ہوتی ہے اور نعت کو نعت ہی ہونا چاہیے لیکن کیا عہد حفیظ کی نعت مولانا احمد رضا خاں کی نعت سے مختلف نہیں؟ کیا اکیسویں صدی کی آخری دہائی میں لکھی جانے والی نعت اکیسویں صدی کی پہلی دہائی میں لکھی جانے والی نعت سے سوچ، اظہار اور ڈکشن کے حوالے سے مختلف نہ ہوگی؟ کیا وہ عصری مسائل سے آنکھیں بند کرلے گی؟ اور پھر کیا نعت ایک صنفِ سخن نہیں؟ کیا نعت ارتقائی مراحل سے نہیں گذری یا نہیں گذرے گی؟ کیا نعت کا منظر نامہ لمحہ بہ لمحہ پھیلتا نہیں جارہا؟ کیا فرد کے ذاتی مسائل ومصائب سے لے کر اجتماع کے مسائل و مصائب کا ذکر نعت کے لیے شجر ممنوعہ کی حیثیت رکھتا ہے؟ یقینا سوچ کی تنگنائوں میں مقید جملہ معترضین ان سوالوں کا جواب دینے سے قاصر ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ نبی مکرمؐ کو کل جہانوں کے لیے رحمت بناکر بھیجا گیا ہے۔ یہ زمانہ جو گذر چکا ہے اور ہر زمانہ جو آنے والا ہے، حضورؐ ہی کا زمانہ ہے حضورؐ کی رحمت محدود نہیں بلکہ لامحدود ہے اور زمان و مکاں کی قید سے ماوریٰ ہے۔ لمحۂ موجود ہی نہیں، آنے والا ہر لمحہ آقائے محتشمؐ کے سائبانِ کرم میں سانس لے گا۔ آج کا نعت نگار اس کائناتی سچائی سے بخوبی آگاہ ہے، اس کا قلم وقت کے ماتھے پر حقیقت پسندی کی سوچ اتار رہا ہے۔

خالدؔ احمد تری نسبت سے ہے خالد احمد
تو نے پاتال کی قسمت میں بھی رفعت لکھی

(خالد احمد)

شان ان کی سوچئے اور سوچ میں کھو جائیے
نعت کا دل میں خیال آئے تو چپ ہو جائیے

(خورشید رضوی)

تختی لکھی تو اسی نام سے آغاز کیا
جس کو معبود نے ہر نام سے اوپر رکھا

(افتخار طرف)

مَیں اُس کا امتی ہوں جس کی خاطر
خدا نے روشنی تخلیق کی ہے

(نجیب احمد)

شبوں کی جاگتی نیندیں ہیں اعتکاف تراؐ
حرا کے سوچتے لمحے عبادتیں تیری

(انورجمال)

جس روز سے نکلا ہوں میں سانسوں کے سفر پر
منزل ہے مدینہ مرا رستہ ہے مدینہ

(اختر شمار)

میں رات کو سویا تھا لیے اُنؐ کا تصور
بدلا ہوا اک شخص اٹھا صبح سویرے

(شیخ صدیق ظفر)

نعت کیا ہے کسی نے جب پوچھا
حرف میں ہم نے روشنی رکھ دی

(قیصر نجفی)

لحد میں پوچھا نکیرین نے کہ کون ہو تم
حضورؐ! آپؐ کا بس نام حافظے میں رہا

(ریاض حسین چودھری)

کائنات کا ذرہ ذرہ صبحِ میلاد کا منتظر تھا۔ یہ صبحِ دلنواز طلوع ہوئی تو گلشن ہستی کا دامن آرزو رحمت کے پھولوں سے بھر گیا، صحنِ جاں میں باد بہاری چلنے لگی۔ تمام الہامی صحیفوں میں میلاد مصطفی کا ذکرِ معطر موجود ہے۔ تمام انبیاء نبی آخرالزماںؐ کی آمد کی خبر دیتے رہے یہ موضوعِ دلکش کبھی پرانا نہیں ہوا۔ ماہ و سال کی گرد اس آئنے کو کبھی دھندلا نہیں سکی۔ نئی نعت نے بھی صبحِ میلاد کے سرمدی اجالوں سے اقلیمِ تمنا میں روشنیاں بکھیرنے کا منصب سنبھالا ہے۔

حضورؐ! آپؐ آئے

تو انسان کو ایسا منشور حاصل ہوا

ضوفشانی سے جس کی

کٹی بیڑیاں تیرگی کے فسوں کی

جھکے کج کلاہوں کے سر

اپنے خالق کے آگے (آثم میرزا)

حضورؐ کی آمد کائنات کی سب سے بڑی سچائی ہے۔ مصلحت اور منافقت کی ایک ایک زنجیر ٹوٹ کر انسان کے قدموں کو بوسہ دے رہی تھی۔ افقِ عالم پر امنِ دائمی کی بشارتیں تحریر ہورہی تھیں۔ فرسودگی قدامت کے ملبے تلے دفن ہورہی تھی۔ نئے دنوں کا روشن نصاب مرتب ہورہا تھا۔ ظلمتِ شب نے رختِ سفر باندھا۔ اکناف عالم سیلِ نور میں ڈوب گئے۔ جبر مسلسل کی طویل رات رزقِ زمین بن رہی تھی۔

اب بھی ظلمات فروشوں کو گلہ ہے تجھ سے
رات باقی تھی کہ سورج نکل آیا تیراؐ

(احمد ندیم قاسمی)

ترے سب زماں، ترا کل جہاں، ترے مہرو مہ، تری کہکشاں
تو اِدھر سے اٹھ تو اُدھر سے آ، کبھی وہ جھلک کبھی یہ جھلک

(نعیم صدیقی)

جو حسن میرے پیشِ نظر ہے اگر اسے
جلوے بھی دیکھ لیں تو طوافِ نظر کریں

(حافظ مظہرالدین)

تخلیقِ کائنات کا وہ نقشِ اولیں
روحِ ازل کا آخری پیکر کہیں جسے

(حمایت علی شاعر)

کٹ کٹ کے گر رہی ہیں صفیں جھوٹ کی تمام
سچائیوں کے ہاتھ میں تلوار آپؐ ہیں

(جمیل ملک)

ہم پہ یہ راز کھلا مصحفِ سیرت پڑھ کر
آپؐ ہر لفظ میں انساں کا مقدر لائے

(قیصر بارہوی)

اللہ اللہ ساعتِ میلاد
قابلِ دید تھی زمیں کی پھبن

(منیر سیفی)

اک مہر جہاں تاب ابھرتا ہے حرم سے
اب جھوٹے خدا اپنے چراغوں کو بجھا دیں

(اقبال عظیم)

علم کا سورج اچھالا جہل کی تنسیخ کی
ذہن کے ہر بند دروازے کو وا اُس نے کیا

(محسن رضا)

پیوند لگائے ہوئے ملبوس میں سیفی
تہذیب و تمدن کا وہ محور تھا وہ کیا تھا

(منیر سیفی)

شفق کا رنگ، ستاروں کی ضو، قمر کی ضیا
حبیبِ پاک کے نور و ظہور کی رونق

(محمد علی ظہوری)

اس کو کہتے ہیں تکمیل انسانیت
ساری اچھائیاں ایک انسان میں

(محشر بدایونی)

آپؐ اعلیٰ نسب، آپؐ امی لقب، آپؐ کن کا سبب آپ محبوبِ رب
آپؐ کا جو ہوا وہ خدا کا ہوا آپؐ کی ذات ہے دلبری دلبری

(ابصار عبدالعلی)

جھکتی نہ درِ کعبہ پہ پیشانی عالم
یہ سجدے کہاں ہوتے اگر آپؐ نہ ہوتے

(گلنار آفریں)

جو سراپا خوشبوئوں کا شہر تھا، وہ ایک شخص
سب میں شامل تھا مگر سب سے جدا پیدا ہوا

(خلش مظفر)

یہ معجزہ ہے آپؐ کے اعجازِ نطق کا
لب بستہ گنگ نوعِ بشر نے صدائیں دیں

(سید ریاض حسین زیدی)

اُن کی نسبت سے دعائوں کا شجر سبز ہوا
ورنہ ٹلتا ہی نہ تھا بے ثمری کا موسم

(صبیح رحمانی)

جسمانی تشدد سے لے کر ذہنی تشدد تک ہمارا تہذیبی منظر نامہ ان گنت بنجر موسموں کی ناروا ساعتوں کی گرفت میں تصویرِ غم بناہوا ہے اس لیے کہ ہم ذہنوں میں تعمیر کیے جانے والے عقوبت خانوں کو مسمار کرنے کی کسی تجویز پر غور کرنے کے لیے بھی تیار نہیں۔ بات بر زباں انا کی سولی پر لٹک رہی ہے۔ طنز اور تضحیک کے نشتر تحقیر کے گہرے پانیوں میں آگ لگا رہے ہیں، سطح سمندر پر نفرتوں اور کدورتوں کے الائو سلگ رہے ہیں، اکیسویں صدی کے آغاز پر بھی بیسویں صدی کی آخری دہائیوں کی طرح مفادات کے قیدیوں نے ہوسِ زر کی بساط بچھائی ہوئی ہے۔ نعت کے وسیع ہوتے ہوئے منظر نامے میں انسانیت کے آنسو سلگ رہے ہیں۔

تجھ کو پہچانا نہیں ابنائے دوراں نے ابھی
ہیں تری عظمت سے بے بہرہ ابھی اہلِ جہاں

(عبدالعزیز خالد)

وارث اس کا نہ ہو سکا کوئی
تخت خالی رہا محمدؐ کا

(ظفر اقبال)

جو انقلاب پیشِ نظر ہے حضورؐ کے
انساں کی ہے فلاح اسی انقلاب میں

(انجم رومانی)

جب بھی اس دنیا میں ظلم و جور کی وحشت بڑھی
عدل کے وہ بانی و معمار یاد آئے بہت

(خالد بزمی)

جب کسی بے بس کو دیکھا ظلم کا ہوتے شکار
اُس کو ظالم سے چھڑایا ہوگئی نعت رسولؐ

(ادیت رائے پوری)

بہار ہو کہ خزاں کارگہِ ہستی میں
انہیں کسی سے غرض کیا جو تیرےؐ ہوجائیں

(صہیا اختر)

عرشِ خدا پہ شانِ خدا جھومنے لگی
مردِ خدا کی عظمتِ کردار دیکھ کر

(شیر افضل جعفری)

تری جدائی میں رونے والے ہی میری بستی میں بچ رہے ہیں
مری زمیں پر ہوائے عالم عذاب تحریر کر رہی ہے

(اجمل نیازی)

جھوٹے خدائوں کی عملداری میں عصائے موسیٰ رکھنا شیوہ پیغمبری ہے۔ تاریخ انبیاء گواہ ہے کہ اللہ کے ان مقرب نبیوں اور رسولوں کی ساری جدوجہد ہی انقلابی جدوجہد ہے۔ یہی انقلابی جدوجہد آج بھی راہ انقلاب میں سورج اتار رہی ہے، آج کا انسان کسمپرسی کے عالم میں ہے، اس کی سوچ کے پرندوں کے پر کاٹ دیئے گئے ہیں، حرفِ دعا لبوں پر آنے سے پہلے ہی دم توڑ دیتی ہے۔ آج کی نعت کا شاعر ماحول کی سنگینی سے پوری طرح آگاہ ہے۔ وہ نعت میں بھی سر تاپا صدائے احتجاج بن جاتا ہے اور وقت کے یزیدوں، فرعونوں اور نمرودوں کو للکار رہا ہے۔ کبھی وہ براہ راست بھی اندر کا لاوا اگلتا ہے اور کبھی غزل کے حسیاتی اظہار سے کام لیتا ہے۔ علامت اس کے جذبوں کے اظہار کا ذریعہ بنتی ہے۔

گذاری ہے شبستانِ ہوس میں زندگی میں نے
پشیماں ہوں پشیماں ہوں پشیماں یارسول اللہ

(عبدالعزیز خالد)

خرد کی موشگافی سے جہنم بن گئی دنیا
زمیں گہوارۂ امن و سکوں اسلام سے ہوگی

(مرتضی برلاس)

بھٹکی ہوئی دنیا کو ضرورت ہے تمہاری
ہاں بارِ دگر بارِ دگر شافع محشر

(انجم یوسفی)

وہ فکرِ نو کہ جسے آپؐ سے نہیں نسبت
ہے اُس کا سود بھی دل کے لیے زیاں کی طرح

(حفیظ الرحمن احسن)

درپیش ہے بے سمت مسافت کی اذیت
اس دور کا انسان ہے دانش کے بھنور میں

(انور مسعود)

کٹ تو سکتا ہوں مگر جھوٹے خدائوں کے حضور
تیرا کاشرؔ ہوں، کبھی سر نہ جھکایا میں نے

(سلیم کاشر)

تہذیب کے داعی ہیں یہاں جابر و ظالم
یاد آتے ہیں اس حال میں بس آپؐ کے اشفاق

(سعید بدر)

اس عہد کے طائف میں گرا ہوں مرے آقاؐ
بس وردِ زباں رکھوں سر عام ترا نام

(محمود رحیم)

جدید اردو نعت مسلم امہ کی محرومیوں کا آئینہ ہے۔ اپنے پر شکوہ ماضی کا بھی اسے پورا ادراک ہے۔ دورِ انحطاط میں زوال آمادہ صدیوں کا نوحہ اس کی پلکوں پر آنسو بن کر سلگ رہا ہے۔

اداسی کے سفر میں جب ہوا رک رک کے چلتی ہے
سوادِ ہجر میں ہر آرزو چپ چاپ چلتی ہے

کسی نادیدہ غم کا کہر میں لپٹا ہوا سایہ
زمیں تا آسماں پھیلا ہوا محسوس ہوتا ہے

تو ایسے میں تری خوشبو

محمد مصطفی صل علی کے نام کی خوشبو
دل وحشت زدہ کے ہاتھ پر یوں ہاتھ رکھتی ہے

تھکن کا کوہِ غم ہٹتا ہوا محسوس ہوتا ہے
سفر کا راستہ کٹتا ہوا محسوس ہوتا ہے

(امجد اسلام امجد)

بستی بستی قریہ قریہ صحرا صحرا خون
امت والے! امت کا ہے کتنا سستا خون

(نعیم صدیقی)

کبھی دنیا کے ہر بازار کو ہم نے خریدا تھا
بکائو مال اب دنیا کے بازاروں میں ہم بھی ہیں

(صبا اکبر آبادی)

لوگ ٹھکراتے ہیں جن کو سنگریزوں کی طرح
اُن غریبوں، بے نوائوں کا سہارا آپؐ ہیں

(تاب اسلم)

جنگِ کشمیر محمد کی رضا ہو یارب
تیغ حیدر کی ہو، لشکر ہو مدینے والا

(آصف ثاقب)

کئی کذّاب آئیں گے کئی دجال آئیں گے
گریباں دجل کا صد چاک کرنا عین ایماں ہے

(عنایت اللہ رشیدی)

وہ دھوپ میں ہے شدت یہ عصر جلدِ قیصرؔ
سایہ طلب کرے گا دیوارِ مصطفی سے

(قیصر نجفی)

اس صورتحال سے گھبرا کر شاعر لاشعوری طور پر عہد رسالت مآبؐ میں گوشہ عافیت تلاش کرنے لگتا ہے، حضورؐ کے عہد نور میں ہونے کی آرزو اس کے ہونٹوں پر مچلنے لگتی ہے۔ تحفظ کے ہاتھ اُس کے برہنہ سر پر عافیت کی چادر تان دیتے ہیں۔

میں اس حقیقت سے آشنا ہوں
کہ اپنا ہونا ہے اپنے بس میں

نہ اپنا مرنا ہے اپنے بس میں
مگر میں اکثر یہ سوچتا ہوں

کہ کاش میں بھی
اسی زمانے میں اور اسی سر زمیں پہ ہوتا
جہاں سرا پائے نور بن کر
زمانے بھر کے لیے پیامِ حیات لے کر
تو جگمگایا

(حفیظ صدیقی)

چھوڑ کر جنتیں چلا آتا
تو مری قبر پر کھڑا ہوتا

(ڈاکٹر محمد طاہرالقادری)

آپؐ جس راہ سے گذرتے تھے
اُس میں میرا بدن بچھا ہوتا

(نجیب احمد)

مرے سوال کی لکنت پہ مسکراتے حضورؐ
کرم کا بہتا سمندر جواب میں ہووت

(ڈاکٹر خالد عباس الاسدی)

بولتا آپؐ کی گواہی میں
سر بہ سر نور میں بسا ہوتا

(اشرف جاوید)

کسی ننھے سے چرواہے کو دیکھوں اور پھر سوچوں
کوئی منظر کئی صدیوں پرانا یارسول اللہ

(سعیدہ ہاشمی)

مجھ کو ہونا ہی اگر تھا تو مرے رب کریم
اُنؐ کے بچپن میں قدمبوسی کا حیلہ ہوتا

پاؤں رکھ رکھ کے گھروندے وہ بنایا کرتے
میں خنک ریت کا بے نام سا ٹیلہ ہوتا

(ریاض حسین چودھری)

ہم نائن الیون کے بعد نام نہاد نئی دنیا کی آلودہ فضا میں سانس لینے پر مجبور ہیں۔ ہمارا اجتماعی وجود پرِکاہ کی حیثیت بھی نہیں رکھتا۔ ہمارے گرد سیاسی اور معاشی غلامی کے حصار کو تنگ کیا جارہا ہے۔ سامراج جب چاہے ہماری معیشت کو ویرانے میں تبدیل کرسکتا ہے۔ نظریاتی اور جغرافیائی سرحدوں کا وجود ہوا میں تحلیل ہورہا ہے۔ بہت پہلے اکبر الہ آبادی نے کہا تھا۔

رقیبوں نے رپٹ لکھوائی ہے جا جا کے تھانے میں
کہ اکبر نام لیتا ہے خدا کا اس زمانے میں

آج یہ شعر حرف بحرف سچ ثابت ہو رہا ہے۔ نصاب تعلیم میں اسلامی تشخص کے ہر آئینے پر پتھروں کی بارش کی جارہی ہے۔ پہلے اسلام کو مسجدوں اور خانقاہوں تک محدود کرنے کا منصوبہ تھا۔ اب اسلام کا تعاقب مساجد اور خانقاہوں کے اندر بھی ہوگا۔ سوویت روس میں کمیونسٹ انقلاب کے وقت مسلمانوں پر جو گذری تھی ان کی ثقافت کا جو حشر ہوا تھا آج معاملہ تو اس صورتحال سے بھی گھمبیر ہوتا جارہا ہے۔ ظلم کا سورج سوا نیزے پر آپہنچا ہے، تمام اخلاقی قدریں پامال ہوچکی ہیں۔ شرف انسانی کی بحالی کا تصور مغربی سامراج کے غبارِ انا میں گم ہوتا جارہا ہے۔ افق عالم پر لکھی دائمی امن کی بشارتوں کے بارود کے سیاہ دھویں نے اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ ہم اپنی اجتماعی قبروں کے لیے یزیدان وقت کے حضور اپنی درخواستیں گزار رہے ہیں۔ انسان کے بنیادی حقوق کی بازیابی کا خواب قصہ پارینہ بن چکا ہے۔ عدل کا کٹا سر نیزے کی نوک پر سجادیا گیا ہے۔ حالی نے حضورؐ کی عدالت میں ملت اسلامیہ کا استغاثہ پیش کیا تھا:

اے خاصۂ خاصانِ رسل وقت دعا ہے
امت پہ تری آکے عجب وقت پڑا ہے

جدید اردو نعت میں استغاثے کا یہی رنگ نمایاں ہے اور آگے چل کر یہ رنگ مزید گہرا ہوگا۔ قلم دہلیز مصطفی پہ سجدہ ریز ہے اور دامن چاک میں امن کی بھیک کا آرزو مند ہے۔

کب سے کرم کا منتظر ماہرؔ نامراد ہے
اس کی طرف بھی یانبیؐ، گوشۂ چشم التفات

(ماہرالقادری)

نخلِ رحمت کی طرح ان کا سفر آساں کر
راہ تکتے ہیں تری مسجدِ اقصیٰ والے

(شہزاد احمد)

خاک کے ٹوٹے ہوئے دل جوڑنے والا ہے تو
سن اے شیشوں کے مسیحا دل شکستہ میں بھی ہوں

(صبہا اختر)

طرزِ دعا بھی سونپ رہی ہوں نگاہ کو
کیوں حرف التجائوں میں حائل دکھائی دے

(ادا جعفری)

میں صنم کدہ ہوں آقاؐ! مرے سارے بت گرا دے
تری ذات بت شکن ہے، تری ذات خود حرم ہے

(عاصی کرنالی)

نبی جی! آپؐ تو سب جانتے ہیں
میں کیا روزِ قیامت چاہتا ہوں

(نجیب احمد)

کیسی عجیب بات ہے سنتے رہے وہ دیر تک
اتنے بڑے ہجوم میں صرف مری ہی داستاں

(یاسمین حمید)

مرے آقاؐ! دعا امت کے من میں
کہ اس میں الفتِ باہم نہیں ہے

(عابد نظامی)

اک خوف ہے جو جاں کو رہائی نہیں دیتا
اب ختم ہو اس قید کی میعاد نبی جی

(محمد سلیم طاہر)

مجموعہ آلام زمانہ یہ صدی ہے
آقاؐ کی طرف دھیان دلاتا ہی رہوں گا

(سلطان صبروانی)

ہمیں منزلوں کی نوید دے ہمیں خیر و شر میں تمیز دے
کہ ہم اپنے ہاتھ سے لکھ رہے ہیں جو زائچے ہیں زوال کے

(محمد فیروز شاہ)

آج کا نعت نگار اس شعور سے بہرہ ور ہے کہ جنگل کی تاریکی کو انسانی معاشروں پر مسلط کیا جارہا ہے۔ انسانی معاشروں کو حیوانی معاشروںمیں تبدیل کرکے سامراج اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل چاہتا ہے۔ جس کی لاٹھی اس کی بھینس کے کالے قانون کو سکہ رائج الوقت قرار دے دیا گیاہے۔ نیک چلنی کے سرٹیفیکیٹ کا حصول مردہ ضمیروں کی مصدقہ نقول کی فراہمی کے بغیر ممکن ہی نہیں، تیسری عالمگیر جنگ اقوام متحدہ کے زیر سایہ لڑی جائے گی۔ اس کی ابتدائی تیاریاں عالم اسلام کو مفلوج کرکے مکمل کرلی گئی ہیں۔ عالمی منظر نامے پر ایک سرسری سی نظر ڈال لینے ہی سے صورتحال واضح ہوجائے گی۔

تری امت پہ کیا گذری
ملے ہیں خاک و خوں میں نام لیوا کس طرح تیرےؐ
ترے ہی امتی تیری ہی امت کے خلاف
اغیار و اعدا کے بنے چھٹ سے مددگار و معین کیسے
مناجات و وظائف ہی فقط سامانِ حرب و ضرب ہیں جن کا
وہ پابندِ روایات کہیں، خوش فہم، خود بیں تیرےؐ پروردگار
پُر امید تھے کتنے فرشتے ان کی نصرت کے
قطار اندر قطار اتریں گے گردوں سے

(مقام بدر جیسے)

ابابیلیں بھی ہوں گی حکم غیبی سے نمودار اس نئے نظم جہاں کے
ابرہہ کی فوج کو باران حشت و سنگ سے پامال کرنے کو
مگر بارِ دگر دیکھے نہ دونوں معجزے یہ چشم عالم نے

(الٹ ہی نکلیں معروضی حقائق سے کٹے خوابوں کی تعبیریں)

فلک سے آگ برسی
ریزہ ریزہ برج و بام و در
مکینوں کے اڑے پرزے
بنے معمور سے ویرانہ، گل و گلزار خاکستر

(عبدالعزیز خالد)

ایک بار اور بھی بطحا سے فلسطین میں آ
راستہ دیکھتی ہے مسجدِ اقصیٰ تیراؐ

(احمد ندیم قاسمی)

پھر خاکداں کو تیری ضرورت ہے لوٹ آ
یہ بات کس سے دہر میں تیرےؐ سوا کہوں

(شہزاد احمد)

اب تو بتان عصر سے زندگی بھر لڑوں گا میں
میرا یہ عزم آہنی آپؐ کے دم قدم سے ہے

(منیر قصوری)

اے شہِ خسرواں، رحمتِ دو جہاں، آج ہم پھر سے ہیں بے زمیں بے مکاں
پھر بشارت کوئی شافعِ عاصیاں، کارواں پھر سرِ صد غبار آگیا

(اوریا مقبول جان)

آ کہ پھر انساں ترستا ہے اکائی کے لیے
ہوگئے پھر فرقہ فرقہ رنگ، نکہت، روشنی

(روحی کنجاہی)

آج پھر امت مسلمہ کو کربلائے عصر میں تشنہ لبی کے موسم ابتلا کی ہولناکیوں کا سامنا ہے۔ جدید اردو نعت میں کربلا کا استعارہ تفہیم جبر کی نئی گرہ کشائی کررہا ہے۔ فکرو نظر کے ان گنت اساسی رویے ابلاغ و اظہار کے مراحل سے گذر رہے ہیں، مسلم امہ آزمائش کی جن جان لیوا گھڑیوں سے دو چار ہے وہ کسی قیامت سے کم نہیں۔ ملت اسلامیہ صدیوں سے انہی سفاک لمحوں کی وحشت اور درندگی کا ہدف بنی ہوئی ہے۔ انخلا در انخلا کو اس کا مقدر بنا دیا گیا ہے۔ اپنے گھر ہی میں اس پر عرصہ حیات تنگ کردیا گیا ہے۔ خیموں کو آگ لگا کر بے گور و کفن لاشوں پر گھوڑوں کو دوڑانے کا حکم دیا جاچکا ہے۔ یزیدان وقت مسند شاہی پر بیٹھ کر مظلوموں کی لاشوں کی پامالی کا منظر دیکھ رہے ہیں کہ ابھی تک خون ٹپک رہا ہے۔ افغانستان اور عراق میں شام غریباں کا منظر دہرایا جاچکا ہے۔ فلسطین میں خون مسلم کی ارزانی دیکھی نہیں جاتی۔ حماس کے رہنما یسین کا بہیمانہ قتل اسرائیل کی دہشت گردی نہیں تو اور کیا ہے۔ کیا طرفہ تماشہ ہے کہ فلسطین کے معصوم بچے پتھر اٹھا کر اپنی نفرت کا اظہار کریں تو وہ دہشت گرد ٹھہریں۔ یہ کیسی اندھیر نگری ہے۔ پہلے ہر محاذ پر اسلام کا راستہ روکا گیا۔ دہشت گردی کو اسلام کے مترادفات میں شامل کرکے عالمی استعمار اپنی بقا کی جنگ لڑ رہا ہے۔ غزل اور نظم کے ساتھ نعت میں بھی اس کا شدید ردعمل سامنے آیا ہے۔

غارِ حرا سے کرب و بلا کے مقام تک
دیدہ وروں پہ فاش ہیں اسرارِ مصطفی

(شورش کاشمیری)

ڈوبے ہوئے لہو میں ہیں اس دور کے بھی ہاتھ
پھر کیا کہوں اگر نہ اسے کربلا کہوں

(شہزاد احمد)

جیحوں کے پار اتریں گے پھر بھی وہ قافلے
پوچھے سوادِ نیل، کنارِ فرات سے

(پروفیسر محمد منور)

اس کربلا میں چادرِ زینبؓ ملے حضورؐ!
لپٹی ہوئی زمین ہے زخموں کی شال میں

(ریاض حسین چودھری)

آج کا مدحت نگار اس اندونہاک صورتحال کا عینی شاہد ہی نہیں سامراج کی رشتہ دوانیوں کا خود بھی ہدف بنا ہوا ہے۔ آج کے فرد کی نام نہاد روشن خیالی نے اسے خود فریبی کے جنگلوں میں اندھا کررکھا ہے۔ اس کے سیکولرازم کا خواب چکنا چور ہوچکا ہے۔ نظریاتی تشخص کو زہر قاتل سمجھنے والا خود ہی زہر خوانی کا شکار ہوچکا ہے۔ آج کا نعت نگار استحصالی طاقتوں کی محلاتی سازشوں سے بخوبی آگاہ ہے۔ جبر ناروا کا موسم اس کی سوچ تک کو اپنی گرفت میں لے چکا ہے۔ اس کے لہو میں بے بسی کا عفریت رینگ رہا ہے، آج کی نعت اپنے عہد کے اس اضطراری پس منظر کا ایک حصہ ہے، نعت نگار کے قلم پر آنسوئوں، ہچکیوں اور سسکیوں کا ہجوم کب سے حرفِ التجا بنا ہوا ہے۔

خبر یہ گرم ہے طاغوتیوں کے حلقے میں
کہ دانت رکھتا ہے بطحا پہ دورِ نو کا یہود

(احسان دانش)

احسان دانش اگر آج زندہ ہوتے تو نجانے مرگِ مسلسل کی اس کیفیت میں کتنے نوحے تخلیق کرتے۔

کب سے محرومِ اذاں ہے سر زمین مرسلیں
قبلہ اول ہے دستِ جورکے زیر نگیں

مل رہی ہے ہم کو نافرمانی حق کی سزا
یارسول اللہ انظر حالنا

(حفیظ تائب)

آج کانعت نگار اسی شعور سے بہرہ ور ہے کہ زمانے کی ہوا سخت برہم ہے، ارض و سما مسلسل زلزلوں کی زد میں ہیں۔ وہ بارگاہ نبوی میں حرف التجا بن کر کھڑا ہے کہ یارسول اللہ! یہ دورِ ابتلا ختم ہونے کو نہیں آرہا۔ کشمیریوں پر ظلم کے پہاڑ توڑے جارہے ہیں اس کرہ ارضی پر آپ کے نام لیوائوں کے لیے کوئی جائے پناہ نہیں امت مسلمہ فکری اور نظری انتشار کا شکار ہے۔

جدید اردو نعت اسلام کے انقلابی پہلو کو اجاگر کرتی ہے۔ یہ احساس تحریک بن کر ابھرا ہے کہ اگر دنیا کو امن کی تلاش ہے، اگر وہ اپنے برہنہ سر پر ردائے عافیت کی تمنائی ہے تو دہلیز مصطفی سے رشتہ غلامی استوار کیے بغیر ایسا ممکن نہیں۔

اے سید سادات عنایت کی نظر ہو
یہ عہد ہوس ڈوب چلا ظلمتِ شر میں

(انور مسعود)

عہد ہوس اپنی قمر سامانیوں کے ساتھ ہر لمحہ حیات ارزانی پر مسلط ہے، صرف ارض وطن ہی نہیں اس کرہ ارضی کا ذرہ ذرہ بے یقینی کی دھند میں لپٹا ہوا ہے، عالمی سطح پر ایک نہیں کئی ثقافتی بحران پیدا ہوچکے ہیں۔ سیاسی اور معاشی افراتفری نے ان بحرانوں کو اتنا سنگین اور گھمبیر بنادیا ہے کہ اولاد آدم وقت کی قتل گاہوں میں اپنے ہی لہو کے رقص مسلسل کی تماشائی بنی ہوئی ہے۔ انسانی معاشرہ تیزی سے حیوانی معاشرے میں تبدیل ہورہا ہے، اخلاقی قدروں کے بے گوروکفن لاشے کو ہوس پرستی کے گدھ کب کا نوچ چکے ہیں۔ آج کا انسان اجتماعی خودکشی کے دہانے پر کھڑا ہے۔ شاداب موسموں اور مخمور ساعتوں کو پھر سے نسل انسانی کا مقدر بنانے اور اسے حصار خوف سے نکال کر امن کی ردائے فاخرہ سے نوازنے کا احساس ذہن انسانی میں اس صبح انقلاب کے آفتاب رسالت کی ضیا پاشیوں کے تصور سے جگمگا رہا ہے جو آفتاب رسالت آج سے ساڑھے چودہ سو سال پہلے فاران کی چوٹیوں پر چمکا تھا۔ اس روشنی نے غار حرا کے مقدس دامن سے اپنے سفر کا آغاز کیا تھا۔

فضائے بے نطق جیسے اقرا کا ورد کرنے لگی تھی
وہ سارے لفظ جو
تیرگی کے سیلاب میں کہیں بہہ چکے تھے
پھر روشنی کی لہروں میں
واپسی کے سفر کا آغاز کررہے تھے
دریچۂ خیال میں
آگہی کے سورج اتر رہے تھے
اس ایک پل میں
وہ میرا امُی
مدینۃ العلم بن چکا تھا

(پروین شاکر)

لب کی امنگ دل کی طلب، جاں کی آرزو
صدیوں زماں مکاں کو رہی تیری جستجو
بے چین گلشنوں میں صبا، جنگلوں میں لو
اُس کے ظہور کے لیے بیکل تھے چار سو
تسکین کائنات کا پیغام آ گیا
وہ آگیا تو زیست کو آرام آگیا

(انور جمال)

آج کے شاعر نے بھی قصر ایمان میں حُب رسول کے چراغ جلانے کا اعزاز حاصل کیا ہے وہ تاریخ کے سفر سے بخوبی آگاہ ہے۔ اس کے حیطۂ شعور میں یہ بھرپور تاثر قائم و دائم ہے کہ حضورؐ آئے تو اس کرہ ارض پر قانون کی حکمرانی قائم ہوئی۔ انسان کو انسان کی خدائی سے نجات ملی۔ اولاد آدم کے لیے ایک ایسا لائحہ عمل مرتب ہوا جو قیامت تک کے انسانوں کے لیے منشور حیات ٹھہرا۔ ایسا ضابطہ اخلاق مدون ہوا جو ہر دور کے انسان کا نصاب زندگی قرار پایا۔ انسان کی خود ساختہ خدائی کا خود ساختہ نظام اپنے ہی ملبے تلے دفن ہوگیا، شرف انسانی کی بحالی کے ساتھ ایک نئے دور کا آغاز ہوا۔ جدید اردو نعت میں یہ تاثر اپنی جملہ تخلیقی توانائیوں کے ساتھ دائرہ عمل میں مینارۂ نور بن گیا ہے کہ فصیل دیدہ و دل پر عشق مصطفی اور محبت آقائے محتشمؐ کے چراغ جلائے بغیر خلعت غلامی رسولؐ کا حصول ممکن نہیں۔ جدید اردو نعت کی صورت پذیری کا موسم تخلیقی عمل سے گذر رہا ہے اور اظہار و ابلاغ کی ان گنت دلکش صورتیں دامن دل کو کھینچ رہی ہیں۔

یہ آستانِ محمدؐ ہے اس طرف آؤ
سکون قلب کی دولت یہاں سے ملتی ہے

(عبدالکریم ثمر)

مانگ لے آفتابِ حرا سے طفیلؔ
جس کو مطلوب ہے جس قدر روشنی

(طفیل ہوشیار پوری)

سخن سبز پھر ہوا ہے بلند
دشت پھر گونج اٹھا محمدؐ کا

(ظفر اقبال)

ادھر سے کون گذرا تھا کہ اب تک
دیار کہکشاں میں روشنی ہے

(تاب اسلم)

مجھے تو دامن افلاک بھی لگتا ہے تنگ ارشد
وہاں بے انتہا تقسیم کی جاتی ہیں خیراتیں

(ارشد مہر)

تریؐ تعریف کو تو پھول ایسے لفظ لکھے تھے
جو دیکھا غور سے تو چاند کاغذ پر نظر آئے

(اقبال ساجد)

عہد طفولیت سے مقام وصال تک
آقاؐ کی ہر ادا کو ہمارا سلام ہو

(جمیل نظر)

مری جبیں تو ہے مخصوص ان کے در کے لیے
ہر آستاں مرا مقصود ہو نہیں سکتا

(حسین سحر)

ہونا ہی تھا سجدہ فرض فرشتوں پر
آدم کی پیشانی میں تھا نور تراؐ

(روف امیر)

قاصرؔ جو دل غلام محمدؐ نہ بن سکے
وہ مبتلائے سحرِ گماں ہیں جہاں بھی ہیں

(غلام محمد قاصر)

غیر مجھ سے نہ ثنا خوانی کی امید کرے
بس مجھے سرور عالمؐ کی ثنا آتی ہے

(محمد حنیف نازش)

میں آفتاب سجائوں نظر نظر شہزاد
اگر غلامیٔ شہ میں قبول ہو جائوں

(قمر رضا شہزاد)

معجزہ بولتا ہے مٹھی میں
سنگریزے زباں نہیں رکھتے

(بشیر احمد مسعود)

دفاع مصطفی کا فریضہ ازل ہی سے نعت گوکو ودیعت کیا گیا ہے اور یہ فریضہ عین منشائے ایزدی ہے، قرآن کے اسلوب ہدایت میں جابجا اس کی تاکیدی صورتیں نظر آتی ہیں۔ آج کا مدحت نگار اپنے فرائض منصبی سے غافل نہیں۔وہ پوری تخلیقی توانائیوں کے ساتھ وقت کے ابو جہلوں اور ابو لہبوں کے فکری مغالطوں اور اجتہادی لغزشوں کے سامنے سیسہ پلائی دیوار بنا ہوا ہے۔

ایمان فروشوں نے سجائے کئی دربار
بگڑا نہیں کچھ بھی مرے پیمان وفا کا

(احمد ندیم قاسمی)

کیا سمجھتے ہیں نبوت کے حریفان قدیم
ہم تہی دست فقیروں کے گریبانوں کو

(شورش کاشمیری)

وہ سچا امتی ہے اس کا تائب
مئے ناموس دیں جو سر بکف ہے

(حفیظ تائب)

علمی اور ثقافتی سطح پر بھی شجرِ انا لقب کی آبیاری ذہنی، فکری اور نظری تبدیلیوں کا پیش خیمہ ثابت ہوتی ہے۔

o