حسان بن ثابتؓ کے آثار قلم کو چومنے والا بے مثال مدحت نگار- نعت کے تخلیقی زاویے
( نشاط احمد شاہ ساقی نے جناب محمد علی ظہوری ؒ کے کے کلام کا انتخاب ’’ ثنا خوانِ رسول‘‘ ترتیب دیا اور 1994ء میں شائع کیا جس پرریاض حسین چودھریؒ نے یہ محبت سے معطر تحریر لکھی۔)
حقیقت یہ ہے کہ قصرِ ایمان کی بنیاد ہی حضورؐ کی محبت ہے اور یہی محبت ہم غلاموں کا سرمایہ حیات ہے، یہی ہمارا توشۂ آخرت ہے اور یہی ہمارا زادِ سفر ہے۔ دلوں کا سارا گداز اور روحوں کا سارا سوز اسی پیکرِ دلنواز کے قدموں کی دھول ہے۔ تمام الہامی صحیفے بزمِ رسالت کے اسی تاجدار کے محامد و محاسن کی قندیلیں لیے آسمانوں سے اترتے ہیں۔ آج بھی اقلیمِ ارض و سماوات میں اس مشہورِ مطلق کی حکمرانی ہے، بحرو بر میں اسی امام مرسلاں کی عظمت کا سکہ رواں ہے۔ اقبالؒ نے جس روح محمد کی طرف اشارہ کیا تھا وہ یہی عشق مصطفی ہے، یہی محبت رسول ہے، یہی نسبتِ تاجدار کون و مکاں ہے، خیمۂ عشق میں ازل سے یہی چراغِ جاوداں روشن ہے۔ ابد تک کائناتِ رنگ و بو اس نور سے مستنیر ہوتی رہے گی اور دھنک کے سارے رنگ اسی آستانِ عطا سے نور کی خیرات لیتے رہیں گے۔ خوش قسمت ہیں وہ لوگ جو سنتِ ربِ جلیل کو اپنی زندگیوں کا اوڑھنا بچھونا بناتے ہیں، ممدوح رب دو جہاں کے گیت گاتے ہیں، جن کے قلم کی نوک پر صل علیٰ کا نغمہ مچلتا ہے اور پسِ مژگاں سروِ چراغاں کا اہتمام ہوتا ہے جن کی سانسیں خوشبوئے اسم محمد سے معطر رہتی ہیں، جن کی نظریں چشم تصور میں بھی طوافِ گنبد خضرا میں مصروف رہتی ہیں اور جو ہر وقت ہر گھڑی اور ہر لمحہ دیوارِ مدینہ کے خنک سایوں اور وادیِ بطحا کی خوشبوئوں سے لبریز ہوائوں سے ہمکلام ہونے کی سعادت حاصل کرتے ہیں۔
محمد علی ظہوری بھی اسی خوش قسمت قبیلے کے فرد ہیں، اسی گروہ عاشقاں کے رکن ہیں جن کے سردار، شاعرِ دربارِ رسالت سیدنا حساّن بن ثابتؓ ہیں۔ محمد علی ظہوری، فروغِ حمد و نعت کے حوالے سے ایک معتبر نام ہے، جن کی کل کائنات نعت ہے، جن کا کل سرمایہ توصیفِ مصطفیؐ ہے، اللہ کے بعد جن کا ہر حوالہ حضورؐ سے شروع ہوکر حضورؐ پر ختم ہوجاتا ہے، جن کا سینہ عشقِ مصطفی کا خزینہ ہے، پلکوں پر جھلملانے والا ہر آنسو بے مثل نگینہ، ظہوری صاحب سچ مچ اپنی ذات میں انجمن، صلہ و ستائش سے بے نیاز، تاجدار کائنات کی ثنا میں مصروف، محمد علی ظہوری، حسان بن ثابتؓ کے آثار قلم کو چومنے والے ایک شاعرِ بے مثال، نعت لکھنے اور نعت پڑھنے میں اپنا جواب آپ، ایک فرد نہیں ایک تحریک کا نام، یہ تحریک دہر میں اسم محمدؐ سے اجالا کرنے کی تحریک، یہ تحریک گھر گھر عشقِ مصطفی کے چراغ تقسیم کرنے کی تحریک۔ یہ کیا کم اعزاز ہے کہ محافل میلادمیں اکثر و بیشتر آپ کا کلام پڑھاجاتا ہے اور پسند کیا جاتا ہے۔ آپ علمی، ادبی اور دینی حلقوں میں نعت کے حوالے سے جانے پہچانے جاتے ہیں۔ آپ کو حساّنِ پاکستان کے لقب سے نوازا گیا۔ اس اعزاز اور اس حوالے کے بعدکسی دوسرے اعزاز اور حوالے کی گنجائش ہی نہیں رہتی۔ ان کی شاعری عوامی سطح پر اترکر حریمِ دیدہ و دل میں چراغ سجاتی ہے۔ سادگی،بے ساختگی اور خودسپردگی ان کے شعری وژن میں ان گنت خوبصورت اور دلکش مناظر ترتیب دیتی ہے اور آوازوں کے ہجوم میں شاعر کو انفرادیت کا رنگ عطا کرتی ہے۔ محمد علی ظہوری کی نعت کے انہی اوصاف کی بدولت ان کا سامع اور قاری بھی شہرِ ہجر کی فصیلوں پر کھڑے ہوکر دل کی آنکھوں سے گنبد خضرا کے میناروں کا نظارہ کرلیتا ہے۔ یہ قاری اور سامع کو اپنے ساتھ لے کر چلتے ہیں۔ چشمِ تصور میں انگلی پکڑ کر حضورؐ کی دہلیز تک لے جاتے ہیں۔ ان کی نعت کی سب سے بڑی خوبی بھی یہی ہے جو بہت کم لوگوں کا حصہ بنتی ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کے فن کو مزید رفعتیں عطا فرمائے اور ان کے ایک ایک لفظ کی بارگاہِ رسالت مآب ﷺ میں پذیرائی ہو کہ پذیرائی کا یہی لفظ ہم غلاموں کے ہونے کی سند جواز ہے۔