یہ عہد بھی حفیظ تائب ہی کا عہد ہے- نعت کے تخلیقی زاویے
مدحت (حفیظ تائب نمبر) مدیر: سرور حسین نقشبندی
زمانہ طالب علمی کا ایک شعر ہے:
اب آپ بھی خیال میں آتا نہیں کبھی
چہرے کئی اتر گئے لوح خیال سے
لیکن بعض چہرے ایسے بھی ہوتے ہیں جو لوح خیال سے کبھی نہیں اترتے بلکہ عمر بھریادوں کے جھروکوں میں فروزاں رہتے ہیں۔ ان چہروں کی روشنی کبھی مدھم نہیں ہونے پاتی۔ ہم انہیں بھلانا بھی چاہیں تو نہیں بھول سکتے۔ حفیظ تائب کا شمار انہی تابندہ چہروں میں ہوتا ہے۔ میں اکثر کہا کرتا ہوں کہ فکری اور نظری رشتے خون کے رشتوں سے بھی زیادہ مضبوط و مستحکم اور پائیدار ہوتے ہیں۔ ماہ و سال کی گرد بھی ان آئنوں کو دھندلا نہیں سکتی۔ گزشتہ روز حلقۂ احباب میں یہ بحث چھڑی ہوئی تھی کہ ہم غلامان مصطفی کے درمیان نہ کوئی خونیں واسطہ ہے نہ پرانی دوستی ہے نہ برادری کا کوئی حوالہ ہے۔ پھر آخر کیا قدر مشترک ہے کہ ہم ایک دوسرے کو سگے بھائیوں سے بھی زیادہ عزیز رکھتے ہیں۔ یہی نا کہ ہم غلامی رسول کے لازوال رشتے کی ڈور میں بندھے ہوئے ہیں۔ یہ رشتہ سب رشتوں سے مضبوط اور پائیدار ہے۔ یہ مقدس رشتہ لفظ زوال سے آشنا ہی نہیں۔ حفیظ تائب کے ساتھ دوستی کی بنیاد یہی محبت رسول ہے۔ یہ حوالہ اتنا مضبوط اور پائیدار ہے کہ موت بھی اس مضبوط رسی کو توڑنے سے قاصر ہے۔ حفیظ تائب کی زندگی ہی میں مَیں نے کہا تھا:
تائب کو ساتھ لے کے سر حشر میں ریاضؔ
آقا حضورؐ کو نئی نعتیں سنائوں گا
یہ نعت مرحوم کی زندگی ہی میں غالباً خالد احمد کے ’’بیاض‘‘ میں چھپی تھی۔ اب میں نہیں جانتا کہ یہ نعت حفیظ تائب کی نظر سے گزری تھی یا نہیں۔ اگر گزری تھی تو وہ ضرور مسکرا کر اشکبار ہوگئے ہوں گے۔ آقائے محتشم ﷺ کا اسم گرامی لبوں پر پھول بن کر کھلتا تو حفیظ تائب کی پلکوں پر ستارے سے چمکنے لگتے۔ چشم تر حضور ﷺ کی بارگاہ اقدس میں حرف التجا بن جاتی۔ اگر کوئی مجھ سے پوچھے کہ آپ حفیظ تائب کو کب سے جانتے ہیں تو میں یقینا اس کا کوئی جواب نہیں دے سکوں گا۔ بعض اوقات صدیوں کے فاصلے لمحوں میں سمٹ جاتے ہیں اور اکثر اوقات لمحوں کے فاصلے صدیوں میں بھی طے نہیں ہوپاتے۔ یہ غالباً آج سے چالیس سال پہلے کی بات ہے۔ حفیظ تائب ابھی باریش نہیں تھے۔ سید آفتاب احمد نقوی شہید، انور جمال، گلزار بخاری، محمد یونس حسرت اور شفیع ضامن ان دنوں شہر اقبال ہی میں مقیم تھے۔یہ شہر اقبال کی مجلسی زندگی کا سنہری دور تھا۔ غریب خانے پر ہر سال شب میلاد و نعتیہ محفل مشاعرہ ہوا کرتی تھی جس میں شہر اقبال کے علاوہ دوسرے شہروں سے بھی نعت کے ممتاز شعراء شریک ہوتے۔ مشاعرہ کے اختتام پر سب حاضرین اور شعراء ’’میلاد ڈنر‘‘ میں شریک ہوتے۔
اب سن مجھے یاد نہیں، ڈاکٹر آفتاب نقوی نے جناح اسلامیہ کالج کے لائبریری ہال میں حفیظ تائب کے کسی نعتیہ مجموعے کی تقریب رونمائی کا اہتمام کیا تھا۔ یہ ربیع الاول کی گیارہ تاریخ تھی۔ تقریب رونمائی کے بعد حفیظ تائب اور دیگر احباب میرے ہاں تشریف لے آئے۔ نماز عشاء کے بعد حفیظ تائب کی صدارت میں نعتیہ محفل مشاعرہ کا آغاز ہوا۔ اب یادداشت ساتھ چھوڑتی جارہی ہے۔ غالباً حافظ لدھیانوی، صوفی محمد افضل فقیر، راجا رشید محمود، منیر قصوری، پروفیسر اکرم رضا، حکیم افتخار محمود فخر بھی شریکِ محفل تھے۔ سب سے آخر میں حفیظ تائب مائیک پر تشریف لائے۔ فرمائش کی گئی کہ وہ نعت سنایئے جو آپ نے مدینہ منورہ میں آقا علیہ السلام کے قدموں میں بیٹھ کر کہی ہے۔ شاعر رسولؐ کی آواز گونجی:
قدموں میں شہنشاہؐ دو عالم کے پڑا ہوں
میں ذرۂ ناچیز ہوں یا بختِ رسا ہوں
دامن مرا دھلوایا گیا عرفہ میں پہلے
پھر درگہ سرکارؐ پہ بلوایا گیا ہوں
حفیظ تائب کی آواز ہچکیوں اور سسکیوں میں ڈوب گئی۔ حاضرین اشکبار آنکھوں سے ایک سچے عاشق رسول ﷺ کی وارفتگی کا مشاہدہ کر رہے تھے۔
میرا پہلا نعتیہ مجموعہ ’’زر معتبر‘‘ 1995ء میں شائع ہوا تھا۔ پیشوائی کے نام سے اس کا دیباچہ حفیظ تائب نے تحریر کیا تھا۔ میں ان دنوں تحریک منہاج القرآن کے مرکزی سیکرٹریٹ (لاہور) میں قیام پذیر تھا۔ پندرہ روزہ تحریک لاہور کی ادارتی ذمہ داریاں میرے سپرد تھیں۔ ایک دن دیکھتا ہوں کہ حفیظ تائب میرے کمرے کی طرف آرہے ہیں۔ اس وقت آصف مسعود رضا میرے ساتھ موجود تھے۔ ہم حفیظ تائب کی پیشوائی کے لیے آگے بڑھے۔ بڑی گرمجوشی سے ملے۔ سلام دعا کے بعد فرمانے لگے۔ میں ’’زر معتبر‘‘ کی پیشوائی ساتھ لیتا آیا ہوں۔ تائب صاحب فون کردیا ہوتا میں دولت خانے پر حاضر ہوجاتا۔ تائب صاحب کے خلوص کے سامنے مزید لب کشائی کی جرأت نہ ہوئی اور پھر نابغۂ عصر حفیظ تائب نے پیشوائی کا ایک ایک لفظ پڑھ کر سنایا۔ یہ ان کی محبت کی محض ایک مثال ہے۔ حفیظ تائب کی پوری زندگی خلوص کی ایسی ان گنت مثالوں سے بھری پڑی ہے۔