خیال کا پرندہ محوِ ثنا ہے- نعت کے تخلیقی زاویے
(’’خیالِ طیبہ‘‘ سید محمد ضیاء محی الدین گیلانی کے نعتیہ مجموعے کا پیش لفظ۔یکم فروری، 2014)
خیالِ طیبہ قصرِ عشق کا صدر دروازہ
خیالِ طیبہ ہم غلاموں کے دلوں کی ایک ایک دھڑکن میں آباد ہے، ایک ایک سانس میں مقیم ہے، لہو کی ایک ایک بوند میں موجزن ہے، خیالِ شہرِ خنک ہماری سوچ کے ہر ہر انداز کی آبرو ہے، وقت کی ایک ایک ساعت کی آرزو ہے، گردشِ ماہ و سال کی جستجو ہے، لفظ کی ہر شاخ مُشبکو ہے اور قلم کی ہر جنبش باوضو ہے۔ تصورِ شہرِ محبوبؐ فکرو نظر کی معراج، چشمِ ادب کی سجدہ گاہ اور دیار عشق میں کامرانی کی وجہِ دلنشین ہے۔ خیالِ طیبہ ستاروں کے جھرمٹ میں ازل سے مسند نشین ہے اور فضائے بسیط میں رقص کناں ہے۔ اسی شہرِ دلنواز کی پر نور گلیوں کے خیال سے حریمِ دیدہ و دل میں چراغاں ہورہا ہے۔ خیالِ طیبہ ہی سے جوارِ گنبدِ خضرا میں اڑنے کی آرزو کو پرِ پرواز ملتے ہیں، بادِ بہاری کو وجد میں آنے کا عندیہ عطا ہوتا ہے، فصیلِ آرزو پر چراغ جلتے ہیں، صبا توصیفِ مصطفی کے گلاب سجاتی ہے اور مشامِ جاں کو معطر کرتی ہے۔ خیالِ طیبہ قصرِ عشق کا صدر دروازہ ہے۔ اس دروازے سے گذر کر ہی صبا ایوانِ نعت میں شمعِ عشق فروزاں کرتی ہے، اسی دروازے سے گزر کر زائرِ مدینہ کو درِ آقاؐ پر حاضری کا پروانہ عطا ہوتا ہے، شہرِ قلم میں پھول کھلتے ہیں اور رنگوں، روشنیوں اور خوشبوئوں کا وردِ مسلسل عمل میں آتا ہے، فضائیں درود و سلام کی رم جھم میں بھیگ بھیگ جاتی ہیں:
میں کرتا ہوں ذکرِ رسولِ معظم
ازل سے مری ہمنوا روشنی ہے
وارداتِ قلبی اور خود سپردگی کی خلعتِ فاخرہ
اسی روشنی کی ہمنوائی میں ’’خیالِ طیبہ‘‘ قرطاس و قلم کی زینت بنا ہے۔ سید محمد ضیا محی الدین گیلانی مبارکباد کے مستحق ہیں کہ ان کی شاعری خود نمائی اور خود ستائی میں ملوث نہیں ہوئی بلکہ ہر وارداتِ قلبی خود سپردگی کی خلعت فاخرہ میں لپٹی ہوئی درِ حضورؐ پر کاسہ بکف دکھائی دیتی ہے۔تصنع اور بناوٹ کا دور دور تک نام و نشان نہیں ملتا۔ شاعر نے گنجلک پن کی ہر شکل سے شعوری طور پر بھی دامن چھڑانے کی سعی کی ہے۔
ہے تمنائے ضیا ایسی حضوری ہو نصیب
ذہن و قلب و روح میں گونجے اذاں یا مصطفی
شاعر کا شعری وژن خوشبوئے اسمِ محمدؐ سے معطر ہے۔ دیارِ عشق و مستی میں ہوائیں ثنائے رسولؐ کے پرچم اٹھائے محوِ التجا ہیں، درود و سلام کی صدائیں بلند ہورہی ہیں، سرمدی روشنیوں سے فضا جگمگا رہی ہے، بادِ صبا کے لبوں پر توصیفِ مصطفی کے چراغ جل رہے ہیں۔ چند اشعار دیکھئے:
دل مسلسل جو روشنی میں ہے
ایسا لگتا ہے اُس گلی میں ہے
میرے گھر میں ہے میلاد اُنؐ کا
رحمتوں نے مرا گھر چنا ہے
میں سب سے بڑا تاجور کا سوالی
مجھے کیا کمی ہے، مجھے کیا کمی ہے
میسر ہے توفیقِ مدحت جو تجھ کو
یقینا ضیا یہ ہنر معتبر ہے
سید محمد ضیاء محی الدین گیلانی نے گیارہ سال کی عمر میں پہلی نعت کہی تھی۔ اگر ذوقِ سفر ہمرکاب رہا تو افقِ نعت پر نئے ستارے دریافت ہوں گے جسے توفیقِ مدحت میسر ہو وہ ہر دوسری تمنا کا کشکول توڑ دیتا ہے، قصرِ شاہی سے اُسے کیا لینا دینا، وہ دنیا کی ہر چاہت سے بے نیاز ہوجاتا ہے، صرف محبوبؐ کی گلی کا طواف ہی اُس کا مقصودِ حیات ٹھہرتا ہے۔ شاہ صاحب جادۂ عشق پر رواں دواں ہیں۔ اللہ کرے مرحلۂ شوق کبھی طے نہ ہو۔
تمنا نہیں تختِ شاہی کی مجھ کو
مرے واسطے اُنؐ کا در معتبر ہے
گدائوں کی ہے بھیڑ چوکھٹ پہ اُنؐ کی
یہ سارا جہاں اُنؐ کے در کا گدا ہے
یہ کائناتِ رنگ و بو آقا علیہ السلام کے قدموں کی خیرات ہے اور ہم غلاموں کا اعزاز یہ ہے کہ ہمارا ہر لمحۂ حیات اسی خیرات کا طلب گار ہے، حشر کے دن بھی ہم اسی خیرات کے تمنائی ہوں گے، سارے زمانے، ساری صدیاں، اسی درِ عطا پر کشکولِ گدائی لے کر آقائے محتشمؐ کے قدموں کے دھوون کے منتظر ہیں۔ شاعرِ ’’خیال طیبہ‘‘ بھی کرم کی اک نگاہ کا منتظر ہے۔ اسے یقین ہے کہ سراب میں بھٹکنے کا یہ عرصۂ محشر مختصر ہے۔ درِ عطا پر عطائوں کی بارش مسلسل ہوتی رہتی ہے۔ ایک دن اس کے مقدر کا ستارا بھی ضرور چمکے گا۔ اس کا دامنِ آرزو بھی طلب کے پھولوں سے بھر جائے گا۔ یہی تیقن قصرِ ایمان کی بنیاد ہے۔ اس تیقن کا اظہار سید محمد ضیا محی الدین گیلانی کی نعت میں تواتر سے ہوا ہے۔ اللہ کی رحمتیں حضورؐ ہی کے صدقے میں برستی ہیں اس لیے کہ ربِ کائنات کے بعد ہمارے آقاؐ ہی مختارِ کائنات ہیں۔ حشر کا دن شافعِ محشر کے اختیارات اور تصرفات کے ظہور کا دن ہے۔
یارسول اللہ لوائے حمد کے وارث ہیں آپؐ
ذات برحق آپؐ کی ہے شافعِ روزِ جزا
سید محمد ضیاء محی الدین گیلانی خوش قسمت ہیں کہ انہوں نے ’’خیالِ طیبہ‘‘ میں جن خیالات کو سپردِ قلم کیا ہے وہ بوصیریؒ سے اقبالؒ تک اور اقبالؒ سے حفیظ تائبؒ تک ہر دور میں نعت کے مقبول موضوعات گردانے گئے ہیں اور کائناتِ ارض و سما کے آخری لمحے تک بلکہ قیامِ حشر کے بعد بھی حضورؐ کے شمائل، فضائل، خصائل اور خصائص ہی ثنائے حضورؐ کا اساسی رویہ بنے رہیں گے اس لیے کہ نعت درود و سلام کے پیکرِ شعری کا نام ہے اور اس نام کے مقدر میں حرفِ زوال لکھا ہی نہیں گیا۔ ’’خیالِ طیبہ‘‘ سے چند مزید مثالیں درج کررہا ہوں۔
آپؐ کے اک تبسم کا اعجاز ہے
رنگ نکھرا ہے جو اس چمن زار کا
لے کے بہار آئے ہیں دنیا میں مصطفی
سب موسموں کی شان تو میرے حضورؐ ہیں
سو بار فدا ایسی قضا پر میرا جینا
آجائے اگر مجھ کو قضا شہرِ نبیؐ میں
قرآن جو پڑھتے ہو تو یہ دھیان میں رکھو
حاصل ہے تمہیں صاحبِ قرآن کی نسبت
اس خدا کو خدا جانتا ہوں
جو مرے مصطفی کا خدا ہے
حمد اور خیالِ طیبہ
حمد میں بھی خیال طیبہ کی آرزو ہو تو مقدر اوجِ ثرّیا سے بھی پرے چمکنے لگتا ہے۔ حضورؐ شافعِ محشر ہیں، ہمارے عیبوں پر پردہ ڈال کر ہم گناہ گاروں، خطا کاروں اور سیاہ کاروں کو شفاعت کی نوید سنا رہے ہیں۔ حضورؐ ہی ہمارے ماویٰ و ملجا ہیں، بے سہاروں کا سہارا بھی آپؐ ہی ہیں۔ شاعرِ ’’خیالِ طیبہ‘‘ حرفِ التجا بن کر درِ حضورؐ پر محوِ ثنا ہے۔ تاجدارِ کائناتؐ قاسم ہیں، مخلوقِ خدا میں خدا کی نعمتیں تقسیم کرتے ہیں۔ یہ مضمون کئی بار مختلف اندازمیں قلم بند ہوا ہے اور خوب ہوا ہے۔ ’’خیالِ طیبہ‘‘ کی کم و بیش ساری نعتیں غزل کی ہیئت میں ہیں لیکن ایک آدھ پابند نظمیں بھی شامل ہیں۔ زیادہ نعتیں چھوٹی بحر میں ہیں۔ طویل بحور میں بھی نعت کی مثالیں ملتی ہیں۔ لیکن کم کم، زبان انتہائی سادہ مگر دلنشین ہے، ابلاغ ہی ابلاغ، ابہام کے چھینٹے شاعر نے اپنی شاعری پر پڑنے نہیں دیئے۔ کربلا کا استعارہ بھی کثرت سے ملتا ہے۔ سید صاحب کا نعتیہ کلام مضمون آفرینی اور اثر پذیری کے حوالے سے اپنی مثال آپ ہے۔ غیر مشروط وابستگی کا اظہار موصوف کی نعت کا بنیادی حوالہ ہے۔ بعد از خدا بزرگ توئی کی بازگشت ’’خیالِ طیبہ‘‘ کے ورق ورق پر محیط ہے، ہر مصرعِ تر اسی باز گشت کی چادر میں لپٹا ہوا ہے۔ خاکِ مدینہ ہی آرزوئوں کا مرکز ہے، غبارِ مدینہ ہی روشنیوں کا منبع ہے، مدینہ مرجعِ عاشقاں ہے اس لیے کہ اس سر زمین کو حضورؐ کے قدموں کو بوسہ دینے کا اعزازِ لازوال حاصل ہوا ہے۔ آپؐ کا گھر وہ عظیم گھر ہے جہاں فرشتوں کو بھی بلا اجازت داخل ہونے کی اجازت نہیں۔ اللہ کرے قیامِ حشر تک فکرو خیال کا پرندہ جانبِ طیبہ محوِ پرواز ہی نہیں محوِ ثنا بھی رہے اس یقین کے ساتھ کہ کائناتِ نعت میں سورج کبھی غروب نہیں ہوگا۔