روحانی رتجگوں کا اِستعارہ- نعت کے تخلیقی زاویے
صاحبزادہ شبیر احمد کمال عباسی کے مجموعہ نعت ’’بحضور‘‘ پر اظہار خیال
( 27 فروری 2013ئ)
مبارک کے مستحق ہیں وہ عظیم المرتبت خانوادے جو اپنی نسل نو کو اپنا ثقافتی اور روحانی ورثہ ہی منتقل نہیں کرتے بلکہ نئی نسل کو روشنی سے اکتسابِ شعور کا ہنر بھی سکھاتے ہیں۔ یوں ثقافتی اکائی کو تحفظ کی رِدا ملتی ہے اور روحانی اثاثے محفوظ ہاتھوں میں منتقل ہوتے ہیں، اِس شعوری عمل سے روحانی اور تخلیقی منطقوں میں علومِ جدیدہ کے دروازے وا ہوتے ہیں اور روایتِ علمی آگے بڑھتی ہے۔ ڈاکٹر صاحبزادہ شبیر احمد کمال عباسی القادری کا تعلق بھی ایک ایسے ہی علمی اور روحانی گھرانے سے ہے جہاں شعر کے پھول بھی کھلتے ہیں اور فکرو نظر کے قافلے بھی خیمہ زن ہوتے ہیں۔ ’’کُوئے فنا‘‘، ’’صحرائے جنوں‘‘ اور ’’ایوانِ بقا‘‘ جیسے شعری مجموعے ڈاکٹر صاحب کی گہری سوچ کے تخلیقی اظہار کے شفاف آئینے ہیں۔ آپ کا تازہ شعری مجموعہ ’’بحضور‘‘ اسی سلسلے کی ایک دلآویز کڑی ہے جو اپنے عہد کے فکری رویوں کی ہی آئینہ دار نہیں، آنے والی دہائیوں میں شعری قدروں کے ارتقائی مراحل کی بھی نشاندہی کرتی ہے، ’’بحضور‘‘ حمد و نعت و منقبت پر مشتمل خوبصورت مجموعہ ہے جو اکیسویں صدی کے نعتیہ سرمائے میں قابلِ قدر اضافہ ہے، ’’بحضور‘‘ کی پہلی حمد کا ایک شعر ؎
ہمارا کیا ہے، سبھی ہے تیرا، یہ جان و ایماں یہ ہستی اپنی
ہمارے دل میں خیال تیرا، کمالِ حسنِ نظر بھی تیرا
نعت کا سفرِ تخلیق کائنات کے پہلے دن ہی سے جاری ہے۔ ہر صدی کے سر پر نعت کا تاج سجایا جاتا رہا ہے اور سجایا جاتا رہے گا۔ کوئی ایک لمحہ بھی ثنائے حضورؐ سے خالی نہیں، ہر زمانہ میرے حضورؐ کا زمانہ ہے۔ جب اکیسویں صدی کی آخری دہائی میں جدید تر اردو نعت کا جائزہ لیا جائے گا تو ڈاکٹر صاحب کا مجموعہ حمدو نعت و منقبت بھی کئی حوالوں سے اپنی الگ شناخت کراتا نظر آئے گا۔ ڈاکٹر صاحب کے فنِ شعر کی جڑیں ادبِ عالیہ کی زمین میں دور تک چلی گئی ہیں۔ ان کی شاعری کلاسیک شاعری کی زندہ روایت ہی کا تسلسل ہے۔ زبان و بیان کے ارتقائی مراحل کو کسی مرحلے پر بھی نظر انداز نہیں کیا گیا۔ ان کا فنِ شعر بلاغت اور فصاحت کے تقاضوں کو کماحقہ پورا کرتا دکھائی دیتا ہے۔ دل کی بات دل سے نکل کر دل ہی میں پیوست ہوجاتی ہے۔ فلسفیانہ موشگافیوں سے شعوری طور پر بھی اجتناب کیا گیا ہے جو ان کی بالغ نظری کا ایک روشن ثبوت ہے۔
نعت کی جامع اور مختصر تعریف ان الفاظ میں کی جاتی ہے کہ نعت درود و سلام کے پیکرِ شعری کا نام ہے۔ نعت دل و نظر کی شاعری ہے، نعت اللہ رب العزت کے حکم کی تعمیل ہے۔ ’’بحضور‘‘ قرآن سے نعت گوئی سیکھنے کی آرزو کے عملی اظہار کا مظہر ہے۔ ’’بحضور‘‘ کی پہلی نعت ہی شاعر کے شعری وژن کی وسعت کی طرف بھرپور اشارہ کرتی ہے ؎
محمدؐ شمعِ بزمِ مرسلاں
محمدؐ پیشِ نظر عارفاں
محمدؐ رحمتِ ہر دو جہاں
محمدؐ قبلۂ کون و مکاں
شاعر نے ایک ایسی پاکیزہ فضا تخلیق کی ہے جس میں انوار الٰہیہ کی مسلسل بارش ہورہی ہے، محبت رسولؐ کی چاندنی پرفشاں ہے۔ فضائے نعت خوشبوئے اسمِ محمدؐ سے معطر ہے، شعور اور لاشعور دونوں درِ اقدس پر دست بستہ دکھائی دیتے ہیں، یہی ایک نعت انہیں دنیائے ادب میں زندہ رکھنے کے لیے کافی ہے۔ تخلیق کار کے تہذیبی، ثقافتی، سماجی، سیاسی اور روحانی نظریات لاشعوری طور پر اس کے فن میں در آتے ہیں، اسی لیے کہا جاتا ہے کہ فن تخلیق کار کی اپنی ہی شخصیت کے جمالیاتی اظہار کا نام ہے۔ ڈاکٹر صاحب اس معیار پر سو فیصد پورا اترتے ہیں۔ روحانیت غیر محسوس طریقے سے ان کے شعری وژن میں اجالے بکھیر رہی ہے۔
خوبصورت تراکیب خوبصورتیوں کی تخلیق کا باعث بنتی ہیں اور مفاہیم کی ترسیل میں معاون ثابت ہوتی ہیں، تراکیب کی ایک کہکشاں آسمانِ شعر کے ہر اُفق پر پھیلی ہوئی ہے، مثلاً لقائے نور احمدؐ، مرجعِ صبر و رضا، صاحبِ اوصافِ ربانی، خلعتِ فقر و سخا، حجتِ بزم ولایت، مصدرِ جُود و کرم، امیرِ معرکۂ کربلا۔ جذبات کی اثر انگیزی اپنی مثال آپ ہے، ایک سبک ندی کا بہائو، ایک خوبصورت آہنگ دامنِ دل کو کھینچتا ہے ؎
سلام اُنؐ پر کہ جو ہیں قاسمِ الفاطِ ربانی
سلام اُنؐ پر کہ جن کا دستِ قدرت دستِ یزدانی
سلام اُنؐ پر کہ جن کو عاصیوں کی لاج کہتے ہیں
سلام اُنؐ پر کہ جن کو صاحبِ معراج کہتے ہیں
دیدہ و دل پر تجلیات کی ایمان افروز بارش کا منظر دیدنی ہے، لغت ہاتھ باندھے کھڑی ہے، اظہار بھی دلآویز، افکار بھی خوبصورت، خوشبوئیں وجد میں ہیں، تصورات کے جگنو مسلسل رقص کے عالم میں ہیں، درودوں کی تتلیاں چہار سمت پرفشاں ہیں ؎
اُنؐ کی نظر سے بزمِ جہاں میں ہے روشنی
کرنیں سی پھوٹتی ہیں رخِ ماہ تاب سے
آپؐ کی ذاتِ مقدس مصدرِ انوار ہے
منتہائے قدسیاں، خیرالوریٰ، صلِ علیٰ
کربلا کا استعارہ نسبتِ رسولؐ کے چراغ لیے تخلیق کی شاہراہ پر رواں دواں ہے، شاعر کا قلم بھی بے خودی اور خو د فراموشی کے سمندر میں ڈوبا ہوا ہے۔ بے ساختہ پن ان کی شاعری کا ایک بنیادی وصف ہے۔ لمحہ لمحہ وارفتگی اور خود سپردگی کا آئینہ دار ہے۔ فارسی زبان و ادب سے آشنائی ان کے نعتیہ ادب کا ایک منفرد پہلو ہے۔ اِن کا کشکولِ آرزو فارسی زبان و ادب کی شیرینی سے لبریز ہے۔ نعت میں استغاثے کا رنگ بھی نمایاں، شاعر دامنِ آرزو درِ اقدس پر پھیلائے نگاہِ کرم کا ملتجی ہے ؎
والیِ شہرِ کرم، بس اک نظر!
یا کریمِ دو جہاں فریاد ہے
میری خاموشی کے کاسے پر پڑی اُنؐ کی نظر
میرے دامن میں دو عالم کی عطا کرتے گئے
مُلاّ کی طلب ثروتِ دنیا سے کمالؔ آہ
ہم کعبے میں محبوبِؐ خدا مانگ رہے ہیں
محتاج سب انہیؐ کے
وہ صاحبِ عطا ہیں
صاحبِؐ عطا کا درِ عطا کبھی بند نہیں ہوتا، رحمتوں کے کواڑ کبھی مُقفل نہیں ہوتے، عافیت کے دریچے کھلے رہتے ہیں، کرم کی بادِ بہاری خلدِ سخن کی پگڈنڈیوں پر رواں دواں رہتی ہے۔ اللہ ڈاکٹر صاحب کے شہرِ تخیل کو خاکِ مدینہ کی تجلیات سے منور رکھے۔ میں اپنی گزارشات کو ڈاکٹر صاحب کے اس شعر کے ساتھ سمیٹتا ہوں؎
ہم سے ادائے حقِ ثنا کیا ہو اے کمالؔ
شانِ نبیؐ لکھی ہے خدا کی کتاب میں
ریاض حسین چودھری
شہرِ اقبال، 27 فروری 2013ء