فرش پر عرش کے شاعر کا شعری وژن- نعت کے تخلیقی زاویے
سید محمد اشرفی جیلانی کچھوچھہ شریف فیض آباد انڈیا کے نعتیہ مجموعہ ’’فرش پر عرش‘‘ پر ایک نظر
کسی بھی تخلیق کار کی تخلیق کو نقدو نظر کی کسوٹی پر پرکھنے سے پہلے خود صاحب تخلیق کے عمرانی، سماجی، ثقافتی، تہذیبی، مجلسی اور روحانی افکار و نظریات کے پس منظر سے ہی نہیں بلکہ اس کے پیش منظر سے بھی آگاہی ضروری ہے کیونکہ تخلیق، تخلیق کار کی اپنی شخصیت ہی کے جمالیاتی اظہار کا نام ہے۔ یہ ممکن ہی نہیں کہ تخلیق کار کی سوچ کے مختلف زاویے اور رویے اس کی تخلیق میں شعوری یا لاشعوری طور پر در نہ آئیں۔ اگر یہ زاویے اور رویے اخباری کالموں جیسے ردعمل کے مظہر ہوں تو وہ تخلیق پروپیگنڈے کی حدود میں مقید ہوکر اپنی اہمیت کھو بیٹھتی ہے، تب ایک تخلیق کار اور ایک ڈھول پیٹنے والے اجرتی میں کوئی فرق باقی نہیں رہ جاتا لیکن اگر ردعمل تخلیق کار کے لہو میں شامل ہوکر اس کی رگوں میں گردش کرنے لگے اور تخلیق کار کے دل کے تاروں پر ایک جہانِ معانی آباد ہوجائے اور اس جہان میں سوز و گداز کے پیکر اترنے لگیں تو یہ تخلیق جمالیاتی حوالے سے بھی افق شعر و ادب پر ایک شاہکار بن کر طلوع ہوتی ہے اور اس کا شمار ادب عالیہ میں ہونے لگتا ہے، اس کے برعکس اگر تخلیقِ ادب کا دعویٰ بھی کیا جائے اور اپنے عہد کی آوازوں پر اپنی سماعت کے کواڑ بند بھی کرلیے جائیں اور دلخراش مناظر دیکھ کر اپنی آنکھوں پر پٹی باندھ لی جائے کہ ہم تو ادب کو زندگی کی ہوا تک نہ لگنے دیں گے تو اسے منافقت کے علاوہ کوئی دوسرا نام نہیں دیا جاسکے گا۔ تخلیق کار کے اردگردپھیلی ہوئی کثافتوں اور لطافتوں دونوں کا فکری سطح پر ادراک اس لیے بھی ضروری ہے کہ ہر فن پارے کے اندر جو زیریں لہر رواں دواں ہوتی ہے اور ظاہر کی آنکھ سے ہمیشہ اوجھل رہتی ہے انہی کثافتوں اور لطافتوں کی مختلف صورتوں کی آئینہ دار ہوتی ہے۔ چنانچہ ضروری ہوتا ہے کہ ان دونوں کی جزئیات تک کا اس طرح مطالعہ کیا جائے کہ زیرِ بحث فن پارہ اپنی تمام تر تفہیمات کے ساتھ قاری کے ذہن میں روشن ہوجائے اور باطنی اور ظاہری سطح پر کوئی ابہام باقی نہ رہے، ’’فرش پر عرش‘‘ تحریک پاکستان کے ممتاز رہنما سید محمد اشرفی الجیلانی کچھوچھوی محدث اعظم ہند کے عارفانہ، حکیمانہ اور نعتیہ کلام پر مشتمل ہے۔ ان کے کلام کا ادبی جائزہ لینے سے پہلے ضروری ہے کہ اس عہد کے سیاسی، سماجی اور ثقافتی رویوں سے بھی بحث کی جائے جن رویوں نے اس شعری مجموعہ کے خالق کے شعری وژن کی حنابندی کا فریضہ سرانجام دیا تھا۔
1857ء کی جنگ آزادی کے بعد ثقافتی اور مجلسی سطح پر اسلامیان ہند کے اندر جو توڑ پھوڑ کا عمل شرو ع ہوا اس نے مسلمانوں کی فکری اور نظری بنیادوں تک کو ہلادیا۔ ان پر مصائب و آلام کا کوہ گراں ٹوٹ پڑا۔ ان پر سرکاری ملازمتوں کے دروازے بند کردیئے گئے، معاشی طور پر ان کے قتل عام کی سازش کی گئی، مغلیہ سلطنت آخری ہچکی لے کر تاریخ کے سینے میں دفن ہوچکی تھی۔ ایشیا کے اس اہم خطے میں ایک نیا معاشرہ جنم لے رہا تھا۔ افق در افق نئے امکانات کے آثار نمایاں ہورہے تھے، تاریخ از سرِ نو اپنی راہیں متعین کررہی تھی، انگریز نے ہندوستان کی سلطنت مسلمانوں سے چھینی تھی اس لیے انتقام کا پہلا نشانہ بھی مسلمانوں ہی کو بننا تھا۔ ہندو کو مسلمانوں سے اپنی ایک ہزار سالہ غلامی کا بدلہ لینے کا موقع ملا تھا اور وہ اس موقع کو ہاتھ سے نہیں جانے دینا چاہتا تھا۔ مسلمانوں کو جسمانی اور روحانی عذاب میں مبتلا کردیا گیا۔ مولانا فضل حق خیر بادی اور دوسرے جید علما کو کالے پانی کی سزا سے برطانوی استعمار کے عزائم کھل کر سامنے آگئے، مسلمانوں کے نظام تعلیم پر کاری ضرب لگائی گئی۔ ان کے ثقافتی اثاثوں کو شکوک و شبہات کے پانیوں کی نذر کردیا گیا۔ اپنے شاندار ماضی سے کٹ کر انہیں زندہ رہنے کی تلقین کی گئی، جان بوجھ کر انہیں ہر شعبہ زندگی میں پسماندہ رکھا گیا۔ مسلم اکثریت کے علاقوں میں صنعتی ترقی کے پہیے کو روک دیا گیا، انگریز اور ہندو کی ملی بھگت سے ہندوستان کا جو سماجی، سیاسی اور ثقافتی منظر نامہ تحریر ہوا اس میں اسلامیانِ ہند کے لیے کوئی جگہ نہ تھی۔
مسلمانوں کی ذہنی صلاحیتوں کو مفلوج کرنے کے لیے کوئی دقیقہ فروگذاشت نہ کیا گیا۔ ان کے اعصاب پر شکست خوردگی کے احساس کو اس طرح مسلط کردیا گیا کہ وہ شعوری سطح پر بھی اپنی ثقافتی اکائی کے تحفظ کے جذبے کو فراموش کرنے لگے۔ برطانوی استعمار نے فاقہ کش مسلمان کے سینے میں محبتِ رسول کے چراغوں کو بجھانے کے ابلیسی منصوبے پر عمل کا آغاز کردیا۔ قادیانیت کے پودے کو کاشت کیا گیا اور اس فتنے کی سرپرستی کرکے قصر ایمان میں شگاف ڈالنے کی ناپاک سازش کی گئی۔ حضور ختمی مرتبتؐ کی ذات اقدس کو مباحث کا موضوع بناکر احترام و اعتماد کی فضا کا دامن تار تار کرنے کی جسارت ہوئی۔ اکبر کے دین الہٰی کے بعد ذہنوں میں تشکیک کے بیج بونے کا عمل شروع ہوچکا تھا اور سیکولرازم کی فصل پک کر تیار ہوچکی تھی۔
حضرت مجدد الف ثانیؒ اور ان کے عظیم رفقاء نے اسلامیان ہند کی فکری رہنمائی کا جو فریضہ سرانجام دیا تھا اور دین مصطفی کو ہندومت کی آلائشوں سے پاک رکھنے کی سعی فرماکر دو قومی نظریئے کی عملی تفسیر پیش کی تھی اب سر سید، اقبال اور قائداعظم نے اسلامیان ہند کی شیرازہ بندی کا کام اپنے ہاتھوں میں لے رکھا تھا اور عصرِ نو کے تقاضوں کی روشنی میں اسلامیان ہند کے لیے سیاسی بیداریوں کا ایک نیا لائحہ عمل تیار کیا تھا، علما اور مشائخ حجروں سے نکل کر رسم شبیری ادا کررہے تھے۔ ہر سطح پر شاتمانِ رسول کا تعاقب جاری تھا اور انگریز اور ہندو کی سازش کو بے نقاب کرکے اسلامیان ہند کو اتحاد کی دعوت دی جارہی تھی۔ مسلم لیگ کا قیام عمل میں آچکا تھا۔ اقبال کے خطبہ الہ آباد (1930ء) کے بعد اسلامیان ہند کو دو قومی نظریئے کی عملی تفسیر مسلمانوں کے لیے ایک الگ خطے کی صورت میں واضح طور پر نظر آرہی تھی۔ بلاشبہ علماء و مشائخ نے بنارس سنی کانفرنس کے ذریعہ پاکستان کی بنیادوں کو استحکام عطا کیا اور قومیں اوطان سے بنتی ہیں کا گمراہ کن نعرہ لگانے والے قوم پرستوں کے سارے خواب ہوا میں بکھر کر رہ گئے اور پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الا اللہ کا نعرہ ہندوسان کے مسلمانوں کے دل کی دھڑکن بن گیا۔ اس فضا میں جو ادب تخلیق ہوا وہ سیاسی بیداریوں کا بھی آئینہ دار تھا اور فکری حوالوں سے بھی اپنی مضبوط اور توانا روایات کا حامل تھا، اقبال کا عظیم الشان فکری نظام کھوئے ہوئوں سے عبارت ہے، عظمتِ رفتہ کی بازیابی کی وہ تڑپ جو قیام پاکستان کی بنیاد بنی کو تحریک کا رنگ اس وقت ملا جب مسلم لیگ کے مطالبہ پاکستان کو علماء و مشائخ نے اپنا فرض منصبی سمجھتے ہوئے ہندوستان کے کونے کونے میں پہنچایا اور اس مطالبے کو منانے کے لیے سر پر کفن باندھ کر برطانوی استعمار اور ہندو سامراج کے سامنے سینہ سپر ہوگئے، ’’فرش پر عرش‘‘ کی شاعری کا خمیر بھی کشتِ دیدہ و دل کی اسی مٹی سے اٹھایا گیا ہے جس مٹی کے ایک ایک ذرے پر ’’پاکستان زندہ باد‘‘ کا نعرہ لکھا ہوا ہے وہ نعرہ جسے سن کر لہو کی ایک ایک بوند جھوم اٹھتی ہے اور پلکوں کی دہلیز پر ارضِ دعا کی محبت کے ان گنت چراغ رقص میں آکر پاکستان کے عظیم شہیدوں کو خراج تحسین پیش کرنے لگتے ہیں۔ اگرچہ ’’فرش پر عرش‘‘ کی شاعری براہ راست قومی یا تحریکی شاعری کی ذیل میں نہیں آتی لیکن جو جذبہ اس شاعری کا محرک بنا ہے وہ وہی جذبہ ہے جو اقبال کی شاعری کی بنیاد بنا یعنی عظمت رفتہ کی بازیابی کا سفر، دہر میں اس محمدؐ سے اجالا کرنے کی آرزو۔
اقبالؒ آنے والی ہر صدی کے شاعر ہیں۔ اس لیے کہ انہوں نے اپنے عصر کو ہی متاثر نہیں کیا بلکہ آنے والی نسلوں کے شعری اور فکری شعور کی آبیاری کا فریضہ بھی سرانجام دیا ہے، ’’فرش پر عرش‘‘ کا شاعر بھی اسی وقار و اعتماد اور اسی آہنگ میں بات کرتا ہے۔ شاعر کا دامن فکری و نظری تضادات سے بالکل پاک ہے۔ وہ ایک نظریاتی شاعر ہے اور اپنے عقائد اور سماجی رویوں کے بارے میں کسی ابہام کا شکار نہیں لیکن وہ اپنی مقصدی شاعری کو اشتہار کا مضمون بھی بننے نہیں دیتا۔ کہیں بھی تخلیق کے آبگینوں کا خون نہیں ہوتا۔ سید صاحب کا نقطہ نظر یہ ہے کہ شعر کو پہلے شعر ہونا چاہیے پھر اس سے مقصدیت کے چراغ بھی جلائے جاسکتے ہیں۔ آپ شباب و شراب کے شاعر نہیں بلکہ ’’فرش پر عرش‘‘ کی شاعری قلوب کی تطہیر اور فکر کی پاکیزگی کی شاعری ہے۔ غزل کا رچائو پوری تخلیقی توانائی کے ساتھ ان کو شہرِ سخن میں رعنائیوں کے جھرمٹ میں جلوہ گر ہوتا دکھائی دیتا ہے۔ مسائل حیات پر گہری نظر رکھتے ہیں اس لیے کہ ان کا نظریاتی تشخص کسی مفروضے پر قائم نہیں بلکہ ٹھوس حقائق اور دلائل پر ان کے شعری وژن کی بنیاد استوار ہے، ذات سے کائنات کے سفر میں یہ اپنے نصب العین کو کبھی اوجھل نہیں ہونے دیتے۔ یاسیت کی ان کے فن کو ہوا بھی نہیں لگی۔ قدم قدم پر رجائیت کا سورج طلوع ہوتا نظر آتا ہے۔ ان کی شاعری ہمارے ثقافتی رویوں کے دلآویز مظہر کا نام ہے جو اپنے قاری کو بھی اطمینان قلب کی دولت عطا کرتی ہے۔ یہ ایک عارف کامل کی شاعری ہے جس میں مسائل تصوف کا بیان بھی ہے اور رموز حیات کی پردہ کشائی بھی کی گئی ہے۔ شاعر نے عصری آوازوں سے اثر ضرور قبول کیا ہے لیکن آوازوں کے اس چنگل میں اپنے منفرد لہجے کی پہچان کرانے میں بھی کامیاب رہے ہیں۔ غالبؔ نے وبائے عام میں مرنا بھی پسند نہیں کیا تھا۔ سید صاحب کی انفرادیت پسندی دیکھئے:
اس بھنور سے نہ الہٰی مری کشتی ابھرے
جس کی ہر موج کا دستور ہے ساحل دینا
گویا وہ جہد مسلسل کے قائل ہیں، تندی بادمخالف کو خاطر میں نہیں لاتے، وقت کے چیلنجوں کو قبول بھی کرتے ہیں اور دشوار گذار بھاٹیوں کو عبور کرنے کا طنطنہ بھی رکھتے ہیں۔ اگر سید صاحب کے دامن خیال میں یہی ایک شعر ہوتا تو صرف یہی ایک شعر انہیں دنیائے شعرو سخن میں زندہ رکھنے کے لیے کافی ہوتا۔ شاعر کے تیور دیکھئے۔
عشقِ بتاں نے صاحب ایماں بنا دیا
اس کافری نے مجھ کو مسلماں بنا دیا
’’فرش پر عرش‘‘ کی زیادہ تر منظومات غزل کی ہیئت میں کہی گئی ہیں اور باقاعدہ ان کے عنوانات باندھے گئے ہیں، غزل کی ہیئت ہی نہیں غزل کا مزاج بھی اپنایا گیا ہے اور تخلیقی سطح پر غزل کی روح کو بھی محسوس کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ مشکل لیکن غیر مانوس ردیفیں سید صاحب کی قادرالکلامی کا منہ بولتا ثبوت ہیں مثلاً تعویذ، گھمنڈ، باعث پہاڑ، خاموش وغیرہ، عنوانات خوبصورت اور بامعنی تراکیب پر مشتمل ہیں اور شاعر کی علمی وجاہت کے آئینہ دار ہیں مثلاً رازِ پنہاں، داغ جبیں، جنونِ عشق، صحیفہ نور وغیرہ، اساتذہ کے معروف نعتیہ کلام پر تضمین اور مخمس کی مثالیں بھی ملتی ہیں۔ فارسی اور عربی تراکیب کی کثرت ہے لیکن کہیں بھی اپنی علمیت کے اظہار کا داعیہ نہیں ملتا بلکہ شاعر کا عجز اور انکسار ہی تخلیقی عمل سے گذرتا دکھائی دیتا ہے، اس مجموعہ کلام میں شاعر کا فارسی کلام بھی شامل ہے، شاعر نے مظاہر فطرت کا سرسری مطالعہ نہیں کیا بلکہ اپنی اجتہادی بصیرت سے مشاہدے کی قوت کو مزید استحکام بخشاہے۔ سادگی کا حسن ایک ایک مصرع میں جلوہ گر ہے۔ بے ساختہ پن شاعر کو قدرت کی طرف سے وافر مقدار میں عطا کیا گیا ہے، محاورے کا استعمال بڑے سلیقے سے کرتے ہیں کہ معانی کی ان گنت پرتیں خودبخود کھلتی چلی جاتی ہیں، ثنائے رسولِ کون و مکاں کے علاوہ ’’فرش پر عرش‘‘ میں عظمت صحابہؓ سے محبت اہل بیتؓ تک ہزاروں رنگ بکھرے ہوئے ہیں، کربلا کا استعارہ ان کے شعری اسلوب کی آبرو ہے۔ شہید کربلا کو حریت فکر کی علامت سمجھتے ہیں، شعرائے دربار رسالت مآبؐ حضرت حسان بن ثابتؓ، حضرت کعب بن زبیرؓ اور حضرت عبداللہ بن رواحہؓ نے فن شاعری کو اسلام اور پیغمبر اسلامؐ کے دفاع میں انتہائی موثر طریقے سے استعمال کیا تھا۔ قلم دو دھاری تلوار سے بھی زیادہ کاٹ رکھتا ہے، اسلام اور پیغمبر اسلامؐ کے دفاع کی تابندہ روایت ہر دور میں زندہ رہی ہے، زندہ ہے اور زندہ رہے گی اس لیے کہ مدحتِ رسول ﷺ کے باب میں دستِ قدرت سے لفظ زوال درج ہی نہیں کیا، والیٔ کون و مکاں کی محبت کے چراغ تو خود خالق کائنات نے روشن کئے ہیں بھلا ان چراغوں کی روشنی کیسے مدہم ہوسکتی ہے؟ قرآن آسمانی ہدایت کا آخری صحیفہ ہے۔ یہ ممدوح رب کائنات ﷺ کی ایک مسلسل نعت ہی تو ہے۔ قرآن مجید فرقان حمید میں ہر طرف محامد سرکار کی دھنک پرفشاں نظر آتی ہے، ’’فرش پر عرش‘‘ کے شاعر نے بھی سنت رب جلیل پر عمل کرتے ہوئے حضورؐ کی بارگاہ بیکس پناہ میں دل کے آبگینوں کا نذرانہ پیش کرنے کی سعادت حاصل کی ہے۔ ’’فرش پر عرش‘‘ کا پہلا شعر ؎
نام ہی نام ہے جو کچھ ہے حقیقت کے سوا
راستہ کوئی نہیں اُن کی شریعت کے سوا
سید صاحب تحفظِ ناموس رسالت ﷺ کا عہد نامہ اپنے قول و عمل سے تحریر کرتے ہیں، کسی مصلحت کو پائوں کی زنجیر نہیں بننے دیتے معاملہ تاجدارِ کائنات ﷺ کے ناموس کا ہو تو مجرمانہ خاموشی کی وجہ سے رواداری، بردباری، تحمل اور صبر جیسے الفاظ بھی بے غیرتی اور بے حمیتی کے مفہوم میں استعمال ہونے لگتے ہیں کیونکہ عشقِ رسول ﷺ ہی معیارِ ایمان ہے، سید صاحب بھی اعلیٰ حضرت احمد رضا خاں بریلویؒ کی طرح تند و تیز آندھیوں میں عشق مصطفی ﷺ کے چراغوں کی تھرتھراتی ہوئی لووں کے آگے جذباتِ محبت کی دیوار چنتے اور اپنی ہتھیلیوں کا بند باندھتے نظر آتے ہیں۔ یہی نہیں بلکہ چراغ سے چراغ جلانے کا منصب بھی سنبھالتے دکھائی دیتے ہیں۔منکرین شان رسالت سے کسی سطح پر بھی مروت کے قائل نہیں۔ تاریخ شاہد و عادل ہے کہ حق کبھی بھی باطل کے ساتھ سمجھوتے کا روا دار نہیں ہوا۔
میں مجرم ہوں تو اپنے ساقیٔ کوثر کی الفت کا
مری تر دامنی اب رشکِ زمزم ہوتی جاتی ہے
خدا کی شان سیدؔ شرک کا فتویٰ وہ دیتے ہیں
کہ خود توحید جن کی شرک میں ضم ہوتی جاتی ہے
واسطۂ رسالت کے بغیر خدا تک پہنچنے کا ہر تصور ابلیسی تصور ہے، تعلیماتِ اسلامی اور قرآن کی منشاء کے سراسر منافی ہے۔
مل نہیں سکتا خدا اُنؐ کا وسیلہ چھوڑ کر
غیر ممکن ہے کہ چڑھیئے چھت پہ زینہ چھوڑ کر
اللہ تعالیٰ قرآن میں شہرِ مکہ کی قسم کھاتا ہے، اس لیے نہیں کہ ایک مقدس تاریخی شہر ہے، اس لیے نہیں کہ اس میں خانہ کعبہ ہے، حطیم ہے، مطاف ہے بلکہ اس لیے کہ اے محبوبؐ یہ تیرا شہر ہے، اس لیے کہ تُو اس بستی میں چلتا پھرتا ہے، اس لیے کہ اس شہر کی مٹی نے تیرے تلووں کا دھووَن پیا ہے اس لیے کہ اس خطۂ زمین کو اے محبوبؐ تیرے نقوشِ پا کو بوسہ دینے کا اعزاز حاصل ہوا ہے۔
بھلا تلووں کی رفعت کو کوئی سمجھے تو کیا سمجھے
کہ خاکِ پائے اقدس کی قسم آئی ہے قرآں میں
حضورؐ کے دارالہجرت کا ذکر آتا ہے تو سیدؔ صاحب کی روح جھومنے لگتی ہیں، لہو کی ایک ایک بوند وجد میں آجاتی ہے، وہ شہر خنک جس کا تصور بھی تھکے ماندے انسانوں میں آسودہ لمحوں کی خیرات بانٹتا ہے، وہ شہر دلنواز جس کی فضائوں میں آج بھی آمنہ کے لالؓ کے انفاسِ پاک کی خوشبو رچی بسی ہے، وہ خطۂ دیدہ و دل جو پوری کائنات میں عرشیوں اور فرشیوں کی نگاہوں کا مرکز ہے۔
ضرور جائیں گے اب خلد میں کہ سنتے ہیں
اتار لائی ہے طیبہ سے رنگ و بوئے رسولؐ
طیبہ کی گلیوں کا ذکر کرتے ہیں تو آنکھوں کے گوشے بھیگ جاتے ہیں اور پلکیں بہرِ سلامی جھک جاتی ہیں، چشم تصور اپنے حضورؐ کو ان گلیوں میں چلتے پھرتے دیکھتی ہے تو عقیدت کے سارے پھول حضورؐ کے قدومِ پاک پر نثار کردیتی ہے۔
جنت کی بہاروں کا خلاصہ تجھے پایا
آ سینے میں رکھ لوں تجھے اے خارِ مدینہ
کچھ خاک کے ذرے ہیں جہاں ایسے بھی سیدؔ
خود عرش سے بڑھ جاتا ہے معیار مدینہ
ایک اور مقام پر فرماتے ہیں:
مدینے کی زمیں بھی کیا زمیں معلوم ہوتی ہے
لیے آغوش میں خلدِ بریں معلوم ہوتی ہے
نتیجہ یہ ہوا اُس آستاں پر جبہ سائی کا
بجائے سنگِ در میری جبیں معلوم ہوتی ہے
نگاہِ یار کی تاثیر سیدؔ ایسی ہے انمٹ
جہاں پر تھی کسک ابتک وہیں معلوم ہوتی ہے
ایک اور خوبصورت شعر دیکھئے:
ہماری خاک اڑا کرتی ہے اسی در پر
قیام بھی ہے مگر مستقل سفر کی طرح
شہر حضورؐ گنبدِ خضرا کی ٹھنڈی چھائوں کا امانت دار ہے۔ مسائل اور مصائب کی آگ میں جھلسی ہوئی خلقِ خدا کی آخری پناہ گاہ ہے۔ گنبد خضرا جس کی ایک جھلک کی آرزو لیے چشم تر میں ہزاروں آئنے ٹوٹتے رہتے ہیں لیکن نظریں ہیں کہ جمالِ گنبدِ خضرا سے بھرتی ہی نہیں، نگاہیں ہیں کہ طوافِ گنبدِ خضرا سے تھکتی ہی نہیں۔
فلک پر کہکشاں صورت زمیں پر ضوفشاں سیرت
سراپا نور ہیں گرد و غبارِ گنبدِ خضرا
اس سے اس کی شانِ مرکزیت صاف ظاہر ہے
مدارِ خلق ہے دار و مدارِ گنبدِ خضرا
بلا تاویل جنت کی فضائیں دیکھ لیتا ہوں
جہاں یاد آگئے نقش و نگارِ گنبد خضرا
اولیاء اللہ کی عظمت و رفعت کا بیان قرآن پاک میں بھی آیا ہے۔ اب جبکہ نبوت کا دروازہ بند ہوچکا ہے، نبی آخرالزماں حضور رحمت عالمؐ دنیا میں تشریف لاچکے ہیں۔ اب قیامت تک کوئی نبی نہیں آئے گا۔ تاجِ رسالت کسی کے سر پر نہیں سجایا جائے گا اور آسمانوں سے وحی لے کر جبریل کا زمین پر نزول نہیں ہوگا، ’’فرش پر عرش‘‘ کا شاعر اولیاء اللہ سے گہری عقیدت رکھتا ہے بلکہ خود بھی گلستانِ طریقت کا ایک مہکتا ہوا پھول ہے۔ مدینہ پاک میں موت کی آرزو عشاق مصطفی کی وہ تمنا ہے جو عمر بھر ان کے سینوں میں طوفان برپا کیے رہتی ہے۔ ایسے خوش نصیب بھی ہیں جنہیں غبار مدینہ کا کفن عطا ہوتا ہے، سید صاحب بھی اس مقطع میں حضورؐ کی چوکھٹ پر موت کو گلے سے لگانے کے آرزو مند ہیں۔ ملتجی ہیں کہ اگر سرزمین مدینہ میں دفن ہونا ان کے مقدر میں نہیں تو اے خدا اولیاء اللہ کے پہلو میں تھوڑی سی جگہ دے دینا، اس لیے کہ تیرے اولیاء بھی تیرے محبوبؐ کی غلامی کے پٹکے کو اپنے گلے کا ہار بناتے ہیں۔
موت آئے تو درِ پاک نبی پر سیدؔ،
ورنہ تھوڑی سی زمیں ہو شہِ سمناں کے قریب
شعرا نے حضورؐ کے قدموں پر گر کر مرجانے کی بھی تمنا کی ہے۔ اس مضمون کو سو طرح سے باندھتے ہیں اور حضورؐ سے اپنی نسبتِ غلامی کا اظہار بڑے والہانہ انداز میں کرتے ہیں اور ریاض الجنہ میں کھڑے ہوکر پکار اٹھتے ہیں یارسول ﷺ آپؐ کے فرمان کے مطابق یہ جنت کا ٹکڑا ہے، یہ حق ہے لیکن حضورؐ ہم غلاموں کی جنت تو آپؐ کے قدموں میں ہے، سیدؔ صاحب حضورؐ کے قدومِ پاک تک رسائی کو اہل وفا کی معراج گردانتے ہیں۔
وصل کی دھڑکنیں ہجر کی الجھنیں
دل کو دن رات کا مشغلہ مل گیا
دونوں عالم سے سیدؔ غنی ہوگیا
جس کو سلطانِ ہر دو سرا مل گیا
چوما تھا جس کو عرش نے ایسے قدم پہ السلام
جن کے نقیب انبیاء ان کے حشم پہ السلام
رحمتِ دو جہاں ہیں جو ان کے کرم پہ السلام
شاہِ عرب پہ السلام شاہِ عجم پہ السلام
زندگی کے کٹھن مراحل طے کرتے ہوئے نظریں رہ رہ کر اپنے شفیق آقاؐ کی طرف اٹھ جاتی ہیں، اس عالم میں شاعر بے ساختہ انہیں پکار اٹھتا ہے۔
دور ہے منزل مسافر ہے تھکا ماندہ ہوا
پشت پر ہے معصیت کا بوجھ بھاری یارسولؐ
اپنے در پر اپنے منگتے کو بلا لیجئے حضورؐ
در بدر پھرتا رہے کب تک بھکاری یارسولؐ
اسی حوالے سے دو شعر ملاحظہ فرمایئے:
یہ کس کے قدم آئے کہ اب اوج پہ پہنچی
خوش بختیٔ تعمیرِ سلیماں شبِ معراج
یہ میرے سر کو نوازا ہے کس کے تلوئوں نے
کہ عرش ہی پہ میں ایسا دماغ رکھتا ہوں
امتِ مسلمہ کی زبوں حالی پر خون کے آنسو روتے ہیں، اپنے آقاؐ کی بارگاہ میں امت کا استغاثہ پیش کرکے نظر کرم کے ملتجی ہوتے ہیں۔ مولانا حالیؔ نے کہا تھا:
اے خاصۂ خاصانِ رسل وقتِ دعا ہے
امت پہ تری آکے عجب وقت پڑا ہے
جب سیدؔ صاحب نے شعور کی آنکھ کھولی تو غالب اور حالی کی انقلابی کاوش سے شعر و ادب کی دنیا انقلاب آفریں تبدیلیوں سے آشنا ہورہی تھی۔ اقبال کا ملّی اور ثقافتی شعور اپنی تمام تر تخلیقی توانائیوں کے ساتھ منصۂ شہود پر آچکا تھا۔ سید صاحب کے ہاں حالی کی مسدس کا رنگ بھی ملتا ہے اور اقبال کا آہنگ بھی سنائی دیتا ہے۔ مثلاً
دہائی ہے مرے مولا، دہائی ہے مرے آقاؐ
عرب سے تا عجم امت میں تیری ایک ماتم ہے
آپ کی ہر غزل میں اے سیدؔ
ساز ہندی ہے لَے حجازی ہے
عالمِ کفر کے مقابلے میں جب عالم اسلام کو پارہ پارہ دیکھتے ہیں تو دل مسوس کر رہ جاتے ہیں۔
کفر سے کفر بغل گیر نظر آتا ہے
کیوں نہیں ہوتے مسلماں بھی مسلماں کے قریب
سید صاحب کے چمنستانِ نعت سے چند پھول:
کون سیدؔ کو ڈھونڈنے پائے
کالی کملی کی وہ پناہ میں ہے
خدا ہرگز نہیں ہیں وہ خدا کے خاص بندے ہیں
مگر بعد از خدا جو کچھ انہیں کہئے وہی کم ہے
میں جن کی جستجو میں ہوں مجھے وہ آپ ڈھونڈیں گے
خداوندا میں تیرے حشر کے میدان کے صدقے
مجھے بیمار رہنے دیجئے عشق محمد کا
مسیحا میں ترے صدقے، ترے درمان کے صدقے
زمانہ اپنے تقویٰ کا فدائی ہے مگر سید،
شفیع المذنبیں پر اپنے اطمینان کے صدقے
لبِ جبریل سے پیہم صدا آتی ہے یہ سید
نویدِ عیدِ میلادِ شہنشاہِ دو عالم ہے
ہمیں کیا گر خزاں آئے کہ گلشن میں بہار آئے
نہ تم آئے تو پھر دنیا میں کوئی بھی ہزار آئے
اگر آنا ہے آئے شرط اتنی ہے مگر سید
نویدِ عیدِ میلادِ النبی لے کر بہار آئے
حضورؐ کی ولادتِ باسعادت کا مضمون ایک جگہ یوں باندھتے ہیں:
ازل کی صبح کے مہر مبیں تشریف لاتے ہیں
شبستانِ ابد کے مہ جبیں تشریف لاتے ہیں
نگاہِ کبریا کے نازنیں تشریف لاتے ہیں
جنابِ رحمۃ للعالمیں تشریف لاتے ہیں
امام نعت گویاں اعلیٰ حضرت احمد رضا خاں بریلویؒ نے نعت کو دو دھاری تلوار پہ چلنے کے مترادف قرار دیا تھا۔ ذرا سا غلو الوہیت کی حدود میں لے جاتا ہے اور ذرا سی لغزش سوئِ ادب میں شمار ہوجاتی ہے۔ ہر قدم پر احتیاط بے حد لازم ہے۔
نبی کا نام ہے ہر جا خدا کے نام کے بعد
کہیں درود سے پہلے کہیں سلام کے بعد
نہ وہ مٹھاس کسی میں نہ وہ ادائے لطیف
کلام کس کا سنیں آپؐ کے کلام کے بعد
سید صاحب کی نعت میں جدید و قدیم نعت کے دونوں رنگ موجود ہیں، جذبات نگاری کے ساتھ سیرت نگاری کے آثارِ قلم بھی جگہ جگہ بکھرے ہوئے ہیں۔
حشر میں جاتے ہوئے مل گئی کالی کملی
مفت میں ہوگیا سید کا بھلا آپ ہی آپ
اُس قدِ زیبا کے آگے کوئی آسکتا نہیں
باغ میں سیدؔ مری ہے دیکھی بھالی شاخ شاخ
کچھ بھی تو شورِ حشر کا خطرہ نہیں انہیں
پائی جنہوں نے طیبہ میں امن و اماں کی نیند
بارانِ کرم دیکھ کے سیدؔ بھی ہے آیا
ہاتھوں میں لیے دفترِ عصیاں شبِ معراج
مدینے کا کچھ کام کرنا ہے سیدؔ
مدینے سے بس اس لیے جا رہا ہوں
محدث کچھوچھوی نے اقبال، احمد رضا اور ظفر علی خاں کا زمانہ پایا ہے۔ ان باکمال شعرا نے دہلیز مصطفی ﷺ سے اپنی نسبتِ غلامی کے چراغ روشن کرنے کی سعادت حاصل کی ہے، شعوری اور لاشعوری دونوں سطحوں پر اپنے احساسِ غلامی کو اپنے لہو کی حرارت میں زندہ رکھا ہے۔ دامنِ نعت کو علمی وجاہت اور فکری شان کے معطر و معنبر پھولوں سے آراستہ و پیراستہ کرنے کا اعزاز حاصل کیا ہے اور جدید اردو نعت کے خدوخال کو واضح کرکے آنے والوں کو فکرو نظر کی پگڈنڈیوں پر نئے دن کے سورج کی روشنی کی موجودگی کا احساس دلایا ہے۔ اس شعری فضا میں اپنی انفرادیت برقرار رکھنا اور اپنے عصری شعور کو اپنے جمالیاتی شعور میں ضم کرنا یقینا ایک غیر معمولی بات ہے اور یہی غیر معمولی بات ’’فرش پر عرش‘‘ کے شاعر کو دنیائے شعر میں ممتاز کرتی ہے۔
غلامِ غلامانِ آلِ نبی کا یہاں بول بالا وہاں بول بالا
یہ سیدؔ ادائے غلامی تمہاری سیادت نہیں ہے تو پھر اور کیا ہے
https://archive.org/stream/FARSH_201401
ریاض حسین چودھری
2014ء