منہاجِ نعت- نعت کے تخلیقی زاویے
انتخاب: محمد رفیق حبیب
کائناتِ ہست و بود کے خالق و مالک نے اپنے سب سے برگزیدہ بندے اور رسول حضرت محمد مصطفی و مجتبیٰ ﷺ کو دستارِ محبوبیت عطا کی، درودوں اور سلاموں کی خلعتِ فاخرہ میں اپنے محبوب ﷺ کے پیکر نورانی کو رکھا، سب فضیلتوں کی فضیلت کا عمامہ ان کے سر اقدس پر سجایا اور آخری آسمانی صحیفے میں اس شان سے تاجدار ارض و سماوات کے محامد و محاسن بیان کیے کہ عشاق مصطفی ﷺ قرآن مجید فرقان حمید کو حضور ﷺ کی ایک نعت مسلسل سے تعبیر کرنے لگے۔ اس لیے حضرت ختمی مرتبت ﷺ کے خصائل، شمائل اور فضائل کا بیان سنت رب جلیل ہے۔ قرآن کا ورق ورق خوشبوئے اسم محمد ﷺ سے معطر ہے، سطر سطر میں حضور ﷺ کے فضائل و خصائل اور شمائل کا ذکر ہے بلکہ خدائے بزرگ و برتر خود اپنے بندوں کو آداب رسالت مآب ﷺ بجا لانے کی تلقین کررہا ہے، خود اپنے بندوں کو اپنے آخری رسول ﷺ کا احترام کرنا سکھا رہا ہے کہ خبردار! میرے نبی ﷺ کی آواز سے اپنی آواز بھی بلند نہ کرنا، مبادا تمہارے سب اعمال پر پانی پھر جائے، اللہ رب العزت اور اس کے ملائکہ تاجدار اقلیم رسالت ﷺ پر ہر گھڑی درود بھیجتے ہیں، رب ذوالجلال اس عمل میں اپنے بندں کو بھی شریک کرتا ہے کہ تم بھی میرے حبیب ﷺ پر خوب خوب درود و سلام بھیجو۔
اس لیے نعت سنت رب جلیل ہی نہیں حکم خداوندی بھی ہے، غلامان رسول ہاشمی ﷺ اپنے رب کے اس حکم کی تعمیل میں دل کے آبگینے قرطاس و قلم کے سپرد کرتے چلے آرہے ہیں، یہ عمل روز ازل سے جاری ہے اور روز ابد کے بعد بھی جاری رہے گا۔ نعت اس محبوب رب کائنات کی توصیف و ثناء کو کہتے ہیں جس کا اسم گرامی ہر آسمانی صحیفے کا مرکزی خیال ہے، جس کے نقوش پا کا تصور ہی ثروتِ حسن و جمال ہے، شاداب موسموں کا ہر جھونکا انفاس رسول عربی ﷺ کی اترن، اسی پیکرِ جودو سخا کی ثنا سے گلزار ہستی معمور، اسی کے ذکرِ جمیل سے چاندنی عالمِ وجد میں اور باد صبا گلستانِ جہان کی روش روش پر محوِ خرام ہے۔ اس قلم کے مقدر کا کیا کہنا جو ہر وقت بارگاہِ رسالت مآب ﷺ میں سربسجود رہتا ہے، ان ہاتھوں کی عظمت کا کیا ذکر جو اس قلم کو تھام کر کشورِ شعر و ادب میں پھول کھلانے اور چراغ جلانے کا منصب سنبھالتے ہیں۔ مقدر کے سکندر ہیں وہ لوگ جو حریم دیدہ و دل میں بزم نعت سجاتے ہیں اور باد صبح گاہی کے ہمزبان ہوکر لبِ تشنہ پر اپنے نبی ﷺ کے ذکر کے گلاب سجاتے ہیں، کشکول آرزو میں کوئی اعزاز ہے تو یہی کہ ہمارے گلے میں غلامیٔ حضور ﷺ کا پٹکا ہے، اسی گھر کی چوکھٹ سے نسبت ہمارا افتخار ہے، نعت اسی افتخار کا تخلیقی اظہار ہے، نعت کی تاریخ اتنی ہی پرانی ہے جتنی خود اس کائنات رنگ و بو کی، ظہور نبی آخرالزماں ﷺ سے بھی پہلے نعت موجود تھی، عہد رسالت مآب ﷺ میں نعت کی روایات کو مزید تابندگی عطا ہوئی، حسان بن ثابت، عبداللہ بن رواحہ، کعب بن زہیرl کے علاوہ حضرت ابوطالب، حضور ﷺ کی والدہ ماجدہ سیدہ آمنہؓ، حضرت عائشہ صدیقہؓ، حضرت فاطمۃ الزہراؓ اور پھر اکابر صحابہ کرامؓ نے بھی ثنائے مصطفی کے چراغ روشن کئے۔ یہ روایت ایران میں پہنچی تو فارسی کے نامور شعراء نے عقیدت و محبت کے جذبات کو شعر کا پیکر عطا کیا، سعدی اور جامی نے رعنائی خیال کے سب اثاثے آقا حضور ﷺ کے قدموں پر نثار کردیئے، امیر خسرو، جان محمد قدسی سے آغا صادق، آغا یمین اور ڈاکٹر عبدالحمید عرفانی تک فارسی نعت کی روایت زندہ رہی ہے۔
اردو زبان کا ثقافتی پس منظر عربی اور فارسی کے مزاج سے ابلاغ پاتا ہے، محمد قلی، قطب شاہ، کرامت علی شہیدی، امیر مینائی، اعلیٰ حضرت احمد رضا خان بریلویؒ، محسن کاکوروی، بیدم وارثی، حسن رضا بریلوی، حسرت موہانی، الطاف حسین حالی اور علامہ اقبالؒ نے نعت گوئی کو نیا آہنگ عطا کیا اور اسے شعورِ ذات سے شعورِ کائنات تک کا مظہر بنایا۔ پاکستان نے اس ساری تابندگی کو اپنے دامن میں سمیٹ لیا۔ پاکستان جو اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے نام پر حاصل کیا گیا تھا، قدرتی طور پر اس کی فضا نعت کے لیے سازگار ثابت ہوئی، حفیظ جالندھری، احسان دانش، اثر صہبائی، ماہرالقادری، عبدالکریم ثمر، اختر الحامدی، سکندر لکھنوی، بہزاد لکھنوی، عزیز حاصل پوری، محشر بدایونی، محشر رسول نگری، احمد ندیم قاسمی، عبدالعزیز خالد، حافظ مظہرالدین، حفیظ تائب، حافظ لودھیانوی، راسخ عرفانی، علیم ناصری، طفیل ہوشیار پوری، یزدانی جالندھری، مظفر وارثی، صوفی محمد افضل فقیر، نعیم صدیقی، عارف عبدالمتین، ع س مسلم، عاصی کرنالی، انور جمال، امین علی نقوی، راز کاشمیری، ضیاء اللہ قادری، آفتاب احمد نقوی، قمر یزدانی، غافل کرنالی، خالد محمود، صائم چشتی، اقبال نجمی، محسن احسان، حمید صدیقی، صہبا اختر، ڈاکٹر خالد عباس الاسدی، نور محمد جرال، آثم میرزا، اقبال عظیم، حنیف اسعدی، محمد علی ظہوری، اعظم چشتی، اعجاز رحمانی، عابد نظامی، خالد احمد، راجا رشید محمود، لالہ صحرائی، سید منیر، منیر قصوری، ضیا نیر، ریاض مجید، غلام محمد قاصر، امید فاضلی، خالد بزمی، حفیظ صدیقی، بشیر حسین ناظم، جعفر بلوچ، عبدالغنی تائب، سجاد مرزا،رفیع الدین ذکی، جسٹس محمد الیاس، ڈاکٹر حسن رضوی، صبیح رحمانی، زاہد فخری اور دیگر شعرا نے نعت کی روایت کو آگے بڑھایا اور آج شہر سخن ان شعرا کی نعت کی خوشبو سے مہک رہا ہے۔
عزیزی محمد رفیق نے اس گلستان سخن سے چند پھول چن کر ’’منہاج نعت‘‘ کے گلدستے میں سجائے ہیں۔ ’’منہاج نعت‘‘ اس لحاظ سے تاریخی حیثیت کا حامل ہے کہ اپنے عہد کے سب سے بڑے نعت گو جناب حفیظ تائب نے یہ نام تجویز کیا، منہاج نعت قدیم و جدید نعت کا ایک نمائندہ انتخاب ہے جو بازار میں ان گنت انتخاب ہائے نعت میں اس لحاظ سے منفرد ہے کہ فاضل مرتب نے اس انتخاب میں محض محافل میلاد کی ضروریات کو مدنظر نہیں رکھا بلکہ انتخاب کا ایک معیار بھی قائم کیا ہے جس کے لیے وہ مبارکباد کے مستحق ہیں۔
حضور ختمی مرتبت ﷺ کو کل جہانوں کے لیے رحمت بناکر بھیجا گیا اس لیے غیر مسلم شعراء نے بجا طور پر یہ نعرہ مستانہ بلند کیا کہ حضور ﷺ کی ذات پر صرف مسلمانوں کا ہی اجارہ نہیں، یہ ذات اقدس ہمارے لیے بھی محترم ہے، حضور ﷺ سب کے لیے رحمت کی چھایا ہیں۔ مرتب نے غیر مسلم شعراء جن میں زیادہ تر ہندو اور سکھ شامل ہیں، کے نعتیہ کلام کا انتخاب بھی منہاج نعت میں شامل کیا ہے۔ یوں یہ انتخاب مزید باثروت ہوگیا ہے۔ مسیحی شعراء مثلاً نذیر قیصر نے بھی انتہائی خوبصورت نعتیں کہی ہیں اگر ان کا اور دوسرے مسیحی شعراء کا کلام بھی شامل اشاعت ہوتا تو یہ انتخاب مزید معتبر گردانا جاتا۔ کتاب کا ایک حصہ سلاموں پر مشتمل ہے اور ایک حصہ پنجابی نعت کے لیے وقف ہے، پنجابی نعت میں گہرائی بھی ہے اور گیرائی بھی۔
مختلف شعراء کے نعتیہ کلام کے مطالعہ سے نعت کے تہذیبی رویوں کی بھی نشاندہی ہوتی ہے اور ایک عہد کا ثقافتی آہنگ بھی نکھر کر سامنے آتا ہے۔ ذات سے اپنے عہد کے آشوب تک کے مختلف پہلوئوں پر روشنی پڑتی ہے اور نعت کے بارے میں ایک اجتماعی نقطہ نظر سامنے آتا ہے۔ اس لحاظ سے بھی ’’منہاج نعت‘‘ کا مطالعہ ذہن میں سوچ کے نئے راستوں کا انکشاف کرتا ہے۔ دراصل یہی انکشاف تخلیقی عمل سے گذرنے کے بعد جذبات و محسوسات کی دنیا میں ذہنی آسودگی اور فکری طمانیت کا باعث بنتا ہے، ’’منہاج نعت‘‘ کا ورق ورق اس ذہنی آسودگی اور فکری طمانیت کی روشنی سے جگمگا رہا ہے، حضور ﷺ کا ذکر انسان کو ہر غم سے آزاد کردیتا ہے، ’’منہاج نعت‘‘ ذکر جمال مصطفی ﷺ کی رعنائیوں کے جھرمٹ میں طلوع ہونے والا ایک ایسا صحیفہ ہے جو قافلہ ہائے شوق کا زادِ راہ ہے، میری دعا ہے کہ وہ مقدس اور معطر جذبات جو ’’منہاج نعت‘‘ کی اشاعت کا محرک بنے حضور ﷺ کی بارگاہ بیکس پناہ میں شرف قبولیت حاصل کریں کہ مکین گنبد خضرا ﷺ کی بارگاہ میں یہی شرف قبولیت ہم غلاموں کے لیے توشہ آخرت ہے۔