انٹرویو: اشفاق نیاز، ضربِ قلم، 2016ء- نعت کے تخلیقی زاویے
انٹرویو: اشفاق نیاز
ضربِ قلم، 2016ء میں شائع ہوا
شہر اقبال کی علمی، ادبی اور مجلسی زندگی میں جدید اردو نعت کے نمائندہ شاعر ریاض حسین چودھری کا کردار کسی رسمی تعارف کا محتاج نہیں، آپ نے فکرو نظر کے ان گنت گوشوں کو تخلیق کی روشنی سے منور کیا ہے۔ ریاض حسین چودھری 8 نومبر 1941ء کو سیالکوٹ میں پیدا ہوئے، آپ کے والد گرامی چوہدری حاجی عبدالحمید شہر اقبال کے معروف صنعتکار اور تاجر تھے۔ تحریک پاکستان میں ان کے بزرگوں نے بھرپور حصہ لیا تھا۔ دھارووال پرائمری سکول سے انہوں نے پرائمری کا امتحان پاس کیا۔ ان دنوں پرائمری سکول میں چوتھی تک کلاسز ہوا کرتی تھیں۔ پرائمری کے بعد آپ گورنمنٹ ہائی سکول میں داخل ہوئے جہاں سے 1957ء میں آپ نے میٹرک کا امتحان پاس کیا، 1963ء میں مرے کالج سیالکوٹ سے بی اے کرنے کے بعد آپ نے پنجاب یونیورسٹی لاہور کے لاء کالج میں داخلہ لیا۔ مرے کالج میں مرے کالج میگزین اور لاء کالج لاہور میں ’’المیزان‘‘ کے دو دو سال تک اردو سیکشن کے مدیر رہے۔ قانون کا امتحان پاس کرنے کے بعد پرائیویٹ طالب علم کی حیثیت سے آپ نے پنجاب یونیورسٹی سے اردو میں ایم کیا اور اپنے آبائی کاروبار سے منسلک ہوگئے۔ آپ دو بار حلقہ اربابِ ذوق سیالکوٹ کے اور ایک بار پاکستان رائٹرز گلڈ سب ریجن سیالکوٹ کے سیکرٹری منتخب ہوئے۔ تقریباً 13 سال تک تحریک منہاج القرآن کے مرکزی سیکرٹریٹ میں مختلف عہدوں پر کام کرتے رہے۔ ریاض حسین چودھری پندرہ روزہ ’’تحریک‘‘ لاہور کے چیف ایڈیٹر کی حیثیت سے بھی خدمات سرانجام دیتے رہے۔ 2002ء میں تحریکِ منہاج القرآن کے شعبہ ادبیات کے صدر کی حیثیت سے ریٹائر ہوئے، ’’خونِ رگِ جاں‘‘ ان کی ملی نظموں کا مجموعہ ہے۔ اب تک آپ کے سات نعتیہ مجموعے شائع ہوچکے ہیں۔ جن کے نام یہ ہیں۔ زر معتبر، رزقِ ثنا، تمنائے حضوری، متاعِ قلم، کشکولِ آرزو، سلامٌ علیک اور خلدِ سخن۔ رزق ثنا اور خلدِ سخن پر دوبار آپ کو حکومت پاکستان کی طرف سے صدارتی ایوارڈ ملا۔ ’’رزقِ ثنا‘‘ کو حکومتِ پنجاب نے سیرت ایوارڈ سے بھی نوازا۔ آج کل آپ حمدو نعت، غزل اور قومی شاعری کے حوالے سے دس بارہ مسودہ جات کو آخری شکل دینے میں مصروف ہیں۔
سوال: شاعری کیا ہے؟
جواب: شاخِ آرزو پر پھول کے کھلنے اور خوشبو کا مشامِ جاں کو معطر کرنے کا نام شاعری ہے۔ شعر تخلیقِ حسن ہے اور تخلیقِ حسن شعر، رعنائیوں کے جھرمٹ میں جذبوں کے مچلنے کا نام شاعری ہے۔جگنوئوں کی روشنی کے رقصِ مسلسل کو شاعری کہتے ہیں۔ دل کے آبگینوں اور تخیل کی پرواز سے ہمکلامی کا نام شاعری ہے، شاعری تخلیقی آسودگی کا نام ہے سوچ جذبوں سے ہمکلام ہو تو شعر قرطاس و قلم کے درمیان ابلاغ پاتا ہے دراصل لفظ اور جذبے کے باطن میں جھانکنے کا ردِ عمل پیکرِ شعری میں ڈھل کر لمحہ مسرت کے حصول کا باعث بنتا ہے، دل کی دھڑکنوں کے رقصِ مسلسل کو شاعری کا نام دیا گیا ہے۔
سوال: کیا شاعری کو مشغلے کے طور پر اپنایا جاسکتا ہے؟
جواب: جی نہیں، شاعری فل ٹائم جاب ہے، یہ ایک خداداد صلاحیت ہے جو ڈگریوں سے حاصل نہیں کی جاسکتی، ٹکٹ جمع کرنا تو مشغلہ ہوسکتا ہے لیکن شاعری نہیں، کوئی شخص یا تو شاعر ہوتا ہے یا پھر نہیں ہوتا۔ تیسری مخلوق کا شہرِ سخن میں داخلہ ممنوع ہے۔
سوال: شعر آمد ہے یا آورد؟
جواب: بہت پرانا سوال ہے۔ ہر دور میں مباحث کا موضوع بنا لیکن آج تک فیصلہ نہیں ہوسکا کہ شعر آمد ہے یا آورد۔ میں عرض کرچکا ہوں کہ شعر کہنا ایک خداداد صلاحیت ہے، کتابوں کی مدد سے علمِ عروض تو سیکھا جاسکتا ہے لیکن کتابوں کی مدد سے کوئی شاعر نہیں بن سکتا۔ میرے خیال میں شعر آمد بھی ہے اور آورد بھی، شعوری کوششوں کا انکار آفاقی سچائیوں کو جھٹلانے کے مترادف ہے۔ خداداد صلاحیتوں میں نکھار شعوری کوششوں سے بھی پیدا ہوتا ہے البتہ بعض اوقات جب تخلیقی لمحہ گرفت میں آتا ہے تو شعوری کوششیں پس منظر میں چلی جاتی ہیں، شعر قلبِ انسانی پر خوشبو کی طرح اترتا ہے، شعر شعور اور لاشعور دونوں کی عطا ہے۔
سوال: آپ نے شاعری کی ابتدا کب کی؟
جواب: چھٹی یا ساتویں کلاس میں شعر گوئی کا آغاز ہوا۔ بچوں کے لیے دو نظمیں لکھیں لیکن بڑوں نے حوصلہ افزائی نہیں کی، یہاں عرض کرتا چلوں کہ حوصلہ افزائی انسان کے اندر کی صلاحیتوں کو جلا بخشتی ہے جبکہ حوصلہ شکنی اندر کے انسان کے قتل کی مرتکب ہوتی ہے، بدقسمتی سے ہر مرحلے پر مجھے حوصلہ شکنی کا سامنا کرنا پڑا حتیٰ کہ میرے ذوق کو رسالہ بازی کا نام دیا گیا۔ لیکن خدا کا شکر ہے ادب کے ساتھ میری کومٹ منٹ کبھی تنزلی کا شکار نہیں ہوئی۔ تحدیثِ نعمت کے طور پر بیان کررہا ہوں، دنیائے ادب سے ایک دن کے لیے بھی غیر حاضر نہیں رہا۔
سوال: بچپن میں آپ کس قسم کا لٹریچر پڑھا کرتے تھے؟
جواب: ’’کھلونا‘‘ دہلی سے آیا کرتا اور سٹال پر بآسانی دستیاب ہوتا۔ ’’تعلیم و تربیت‘‘ لاہور سے شائع ہوتا ’’علم و ادب‘‘ کا اجرا سیالکوٹ سے ہوا تھا۔ اسلم ملک اس کے ایڈیٹر تھے۔ ’’بچوں کی دنیا‘‘ ’’کلیم‘‘ بہت سے نام اب ذہن سے اتر چکے ہیں۔’’نوائے وقت‘‘ ہمارے ہاں باقاعدگی سے آتا۔ پاکستانیت کا شعور اور وطنِ عزیز سے غیر متزلزل اور غیر مشروط کومٹ منٹ ’’نوائے وقت‘‘ ہی کی عطا ہے۔ ترقی پسند تحریک کا علم بردار ہفت روزہ ’’لیل و نہار‘‘ بھی زیرِ مطالعہ رہتا۔ نوائے وقت کے ہفت روزہ قندیل اور لیل و نہار کے بچوں کے صفحات پر میری نظمیں شائع ہونا شروع ہوگئیں تھیں، نعتیہ شاعری کی اشاعت کا آغاز ہفت روزہ قندیل سے ہوا۔ اس وقت شرقی بن شائق اس ہفت روزہ کے ایڈیٹر تھے، روزناموں کے ہفتہ وار میگزین شائع کرنے کا ابھی رواج شروع نہیں ہوا تھا۔ ماہنامہ ’’نقاد‘‘ کراچی اور’’ بیسویں صدی‘‘ دہلی بھی باقاعدگی سے پڑھا کرتا۔ آٹھویں کلاس تک نسیم حجازی کے تقریباً تمام تاریخی ناول پڑھ چکا تھا۔ بچپن میں کلام اقبال بلند آواز سے پڑھتا۔ اکثر اشعار کے معانی پوری طرح سمجھ میں نہیں آتے تھے لیکن یہ اشعار پڑھ کر میں آبدیدہ ہوجاتا۔
وہ نظر آتا ہے تہذیب حجازی کا مزار
مَیں اکثر رو پڑتا۔ ملتِ اسلامیہ کی شیرازہ بندی کے خواب کو تعبیر نہ مل سکی۔ اب تو خود بھی مسلم امہ کی زبوں حالی پر خون کے آنسو روتا ہوں، حضورؐ کی امت کا ایک نوحہ گر ہوں۔ غالب، اقبال اور فیض میرے پسندیدہ شاعر ہیں، ساحر لودھیانوی کی مزاحمتی شاعری نے بے حد متاثر کیا۔
سوال: اپنے کالج کے احباب اور اساتذہ کا ذکر کرنا پسند کریں گے؟
جواب: 1957ء میں میٹرک کرنے کے بعد مرے کالج سیالکوٹ میں داخل ہوا لیکن شدید علالت کی وجہ سے میرا یہ سال ضائع ہوگیا۔ اگلے سال کالج جائن کیا۔ وارث میر اور ع ادیب کا طوطی بول رہا تھا دونوں بہت اچھے مقرر تھے، اب دونوں اللہ کو پیارے ہوچکے ہیں، اللہ انہیں اپنے جوارِ رحمت میں جگہ دے، ٹامس وحب کالج کے پرنسپل تھے جبکہ ٹریسلر وائس پرنسپل تھے۔ مرے کالج اُس وقت ایک مشنری کالج تھا۔ سٹیفن صاحب ہمارے پولیٹیکل سائنس کے ٹیچر تھے۔ آسی ضیائی صاحب اردو پڑھایا کرتے تھے، ہم کالج ٹائم کے بعد ان سے طلسم ہوشربا سبقاً پڑھاکرتے تھے۔ میں مرے کالج میگزین کا دو سال تک مدیر رہا۔ بزم اردو کے صدر کی حیثیت سے بھی کام کیا۔ پروفیسر امین طارق بزم اردو کے سیکرٹری تھے، آج کل ریٹائرمنٹ کے بعد کسی پرائیویٹ کالج میں خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ ریاض احمد چغتائی، منیر احمد بھٹہ، اعجاز بھٹہ (جو اعظم بھٹہ کے چھوٹے بھائی تھے جوانی ہی میں ان کا انتقال ہوگیا) مشتاق احمد باجوہ، محمد اسلم خان، اقبال منہاس، خواجہ اعجاز احمد بٹ میرے قریبی ساتھی تھے۔ نیاز احمد صوفی بھی ہمارے ساتھیوں میں شامل تھے۔ صوفی محمد اشرف مرے کالج میگزین کے نگران تھے۔
سوال: اب کچھ لاء کالج لاہور کا ذکر ہو جائے۔
جواب: 1963ء میں مرے کالج سیالکوٹ میں بی اے کرنے کے بعد اورینٹل کالج لاہور (پنجاب یونیورسٹی) میں ایم اے اردو میں داخلہ لیا۔ سید عبداللہ کالج کے پرنسپل تھے۔ ایک ماہ تک ایم اے اردو کا طالب علم رہا۔ وولز ہوسٹل میں رہائش بھی مل گئی لیکن جب لاء کالج میں ایوننگ کلاسز کا آغاز ہوا تو لاء کالج میں داخلہ لے لیا۔ دو سال تک ’’المیزان‘‘ کا ایڈیٹر رہا۔ کوکب اقبال انگریزی سیکشن کے ایڈیٹر تھے، مجلسِ ادارت میں بشیر انصاری بھی شامل تھے، یہ فیلڈ مارشل جنرل محمد ایوب خاں کا دور تھا۔ صدارت ان کا مقدر بنی۔ نواب آف کالا باغ پنجاب کے گورنر تھے، جمہوریت کا گلا گھونٹ دیا گیا تھا۔ میری ایک غزل المیزان میں شائع ہوئی جس کا ایک شعر ہے:
کیسے بہار آئے کھلیں پھول کس طرح
گلچیں مرے چمن کا نگہباں ہے ان دنوں
اردو سے بے وفائی کا نتیجہ آج تک بھگت رہا ہوں۔ گو لاء کرنے کے بعد جلیل جاوید ایڈووکیٹ اور میں نے پرائیویٹ طلبا کی حیثیت سے پنجاب یونیورسٹی سے اردو میں ایم اے کرلیا لیکن یوں میرے قیمتی چار سال ضائع ہوگئے، قانون کی تعلیم سے مجھے کچھ حاصل نہ ہوا۔ اردو چھوڑ کر لاء کالج میں داخلہ لینا میری ایک بڑی غلطی تھی۔
سوال: اپنے زمانۂ طالب علمی کے مزید اشعار سنایئے۔
جواب: تو سنیئے:
ماں کا دل کانچ کی گڑیا سے بھی نازک ہے ریاضؔ
رات کو آؤ گے کب، ماں کو بتا کر جانا
حسرتِ تعبیر کی یہ انتہا دیکھو ریاض
ایک چڑیا مرگئی ہے چونچ میں تنکا لیے
کچے مکاں سے جب بھی نکلتی ہے تو کبھی
جھکتی ہیں اونچے اونچے مکانوں کی سمٹیاں
سردی کا زور ٹوٹ چکا ہے مگر ابھی
چینی کی ایک گڑیا سی لپٹی ہے شال میں
سوال: نعت کیا ہے؟ کیا نعت اتحادِ امت کی بنیاد بن سکتی ہے؟
جواب: نعت درود و سلام کے پیکرِ شعری کا نام ہے، ہدایت آسمانی کی آخری دستاویز قرآن مجید فرقان حمید میں تاجدار کائنات حضور رحمت عالمؐ کے محامد و محاسن کی دھنک پھیلی ہوئی ہے۔ نبیٔ آخرالزماںؐ کے شمائل، فضائل، خصائل اور خصائص ہی نعت کے اساسی رویے مرتب کرتے ہیں، اللہ کی سنت پر عمل کرتے ہوئے حضورؐ کے ذکر کو بلند کرنے کا نام نعت ہے۔ اللہ اور اس کے فرشتے حضورؐ پر درود پڑھتے ہیں۔ ہر ایمان والے کو حکم ہے کہ حضورؐ پر درود پڑھا کرو اور سلام بھیجا کرو۔ خدا کا شکر ہے کہ وہ لوگ جو نعت کو شجر ممنوعہ قرار دیا کرتے تھے وہ اب نعت کو اپنا رہے ہیں۔ یوں نعت اتحادِ امت کا باعث بن رہی ہے۔ مکینِ گنبدِ خضرا سے غلامی کا رشتہ از سر نو استوار کیے بغیر نہ اتحاد امت کا خواب شرمندۂ تعبیر ہوسکتا ہے اور نہ عظمتِ رفتہ کی بازیابی کی آرزو پوری ہوسکتی ہے۔
سوال: کیا نثر میں نعت ممکن ہے؟
جواب: کیوں نہیں، نثر اور نظم کا فرق اپنی جگہ۔ اس فرق کے باوجود جذبات میں ڈوبے ہوئے ہم ایسے نثرپارے بھی دیکھتے ہیں جن پر شاعری کا گمان ہوتا ہے۔ قرآن پاک کو ایک نعت مسلسل کہا جاتا ہے۔ سرکارؐ کے محامد و محاسن ہر سمت جلوہ گر ہیں، قرآن نثر میں ہے نظم میں نہیں، عطاء اللہ شاہ بخاری، صاحبزادہ فیض الحسن، شورش کاشمیری، پیر کرم شاہ الازہری، شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری اور دیگر علما کی تقاریر کے بعض حصے نعت کی ذیل میں آتے ہیں، ظاہری طور پر یہ تقاریر نثر میں شمار ہوتی ہیں۔
سوال: آپ کب سے نعت کہہ رہے ہیں۔ کب آپ پر انکشاف ہوا کہ آپ کے اندر ایک شاعر چھپا بیٹھا ہے؟
جواب: مجھے نہیں معلوم کہ میں کب سے نعت کہہ رہا ہوں، مجھے یہ بھی معلوم نہیں کہ مجھے کب احساس ہوا کہ میرے اندر ایک مدحت نگار موجود ہے۔ ایک تازہ شعر میں آپ کے سوال کا جواب موجود ہے۔
عالم ارواح میں معلوم تھا مجھ کو ریاضؔ
مَیں قلم رکھ دوں گا آقاؐ کے قدوم پاک پر
ایک نعت کے قطعہ بند اشعار:
روز الست آنکھ جو کھولی شعور نے
قدرت نے ایک نور سا ہاتھوں میں رکھ دیا
مَیں نے بڑے خلوص سے چوما اُسے ریاضؔ
اور پھر قلم حضورؐ کے قدموں میں رکھ دیا
سوال: کیا وجہ ہے کہ حمد کی نسبت نعت زیادہ کہی جارہی ہے؟
جواب: اس میں شاید شعوری کوششوں کا اتنا زیادہ دخل نہ ہو، مطلوب و مقصود اللہ رب العزت تک رسائی ہے لیکن یہ رسائی واسطۂ رسالت کے بغیر ممکن نہیں، قرآن پاک میں ارشادِ خداوندی ہے:
’’اور (اے حبیب) اگر وہ لوگ اپنی جانوں پر ظلم کر بیٹھے تھے، آپ کی خدمت میں حاضر ہوجاتے اور اللہ سے معافی مانگتے اور رسولؐ بھی ان کے لیے مغفرت طلب فرماتے تو وہ (اس وسیلہ اور شفاعت کی بنا پر) ضرور اللہ کو توبہ قبول کرنے والا، نہایت مہربان پاتے‘‘۔
یہ نقطہ نظر کسی بندے کا نہیں بلکہ قرآن کا اسلوب دلکش ہے، عرفانِ مصطفی کے بغیر عرفانِ خدا ممکن نہیں۔ قرآن کلامِ خدا ہے۔ ارشادِ خداوندی ہے کہ ہم نے آپ کا ذکر آپ کے لیے بلند کیا۔ آج کا شاعر دربارِ رسالت مآبؐ کے شعرا کے آثار قلم ہی سے اکتساب شعور کررہا ہے۔ آج کی نعت بھی حمدِ خدا کے شعور کو اجاگر کررہی ہے۔ نعت کا شاعر دہلیزِ مصطفی کو چوم کر تیزی سے وادیِ حمد میں داخل ہورہا ہے۔ اب حمدیہ مجموعے الگ سے شائع ہورہے ہیں، روزِ ازل سے آج تک ایک لمحہ بھی حمدِ خدا سے خالی نہیں، کائنات کا ذرہ ذرہ اپنے خالق کی حمد بیان کررہا ہے، ذات الہٰی ہمیشہ ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ہے۔ وہی ہمارا معبود حقیقی ہے اور اسی کی جانب ہمیں لوٹ کر جانا ہے۔ آج کا شاعر لاشعوری طور پر نعت میں حمدیہ اشعار بھی داخل کررہا ہے، حمدیہ مشاعروں کا بھی آغاز ہوچکا ہے، ہر شاعر کی آرزو ہے کہ جب وہ داورِ محشر کے حضور پیش ہو تو اس کے ہاتھ میں بیانِ حمد بھی موجود ہو، مَیں نے خود حمد کے دو مجموعے ترتیب دیے ہیں، حمدیہ قطعات پر مشتمل کتاب الگ سے شائع ہورہی ہے۔ (ان شاء اللہ)
سوال: اس مرحلہ پر آپ اپنے مرحوم ساتھیوں کو یاد کرنا چاہیں گے۔
جواب: کتنے روشن ستارے افق کے پار غروب ہوگئے، اب وہ عدم آباد میں آباد ہوچکے ہیں۔ جہاں سے آج تک کوئی واپس نہیں آیا۔ شجر طہرانی، عشق الہاشمی، اثر صہبائی، ڈاکٹر عبدالحمید عرفانی، عباس اثر، یونس رضوی، میر عزیز، تصور کرتپوری، اطہر سلیمی، رفیق ارشد، ابرار حسین ابرار، کلیم سیالکوٹی، شفیق مشفق، قمر تابش، قاضی محمد اختر، اسلم عارف، صادق چغتائی، اسلم دیوانہ، محبوب شفیع، آثم میرزا، اصغر سودائی، جلیل جاوید، خلیل انور، اکرام سانبوی، ع ادیب، نصرت ادیب ہاشمی، ریاست علی چودھری، آثم فردوسی اشکبار آنکھیں ان مرحومین کی ادبی خدمات کو خراج تحسین پیش کرتی ہیں۔
سوال: آپ اپنے تخلیقی سفر کے کس دور کو شہرِ اقبال کا سنہری دور قرار دیں گے؟
جواب: میرے خیال میں 1975ء سے 1985ء تک کا دور عہد جدید میں ادبی حوالوں کے لحاظ سے شہر اقبال کی موجودہ تحریک کا سنہری دور ہے۔ گلزار بخاری، شفیع ضامن، سید آفتاب احمد نقوی، انور جمال، محمد یونس حسرت، یوسف نیر، اعزاز احمد آذر اور چند ایک دوسرے احباب کا لاہور اور دیگر شہروں سے شہر اقبال کے مختلف کالجوں اور اداروں میں تبادلہ ہوا۔ اور شہر اقبال کی مجلسی و ادبی زندگی ادب کے نئے ذائقوں سے آشنا ہوئی۔ یہ حلقہ ارباب ذوق کا بھی سنہری دور تھا۔ حلقے کو مقامی ادبا اور شعرا کا بھی بھرپور تعاون حاصل رہا۔ تاب اسلم، اصغر سودائی، وارث رضا، ناصر ہیرا، عابد چودھری، خواجہ اعجاز احمد بٹ، ازہر منیر، ع ادیب، طارق اسماعیل، رشید آفریں، اسلم ملک، ارشد طہرانی، یونس رضوی، عباس اثر، میر عزیز، اطہر سلیمی، رفیق ارشد، ابرار حسین ابرار، اسلم عارف، صادق چغتائی، محبوب شفیع، منظور حسین کاشف، ضرار محمود ملک، اعزاز احمد آذر، افتخار بخاری، زرینہ زمرد ملک، امیر فیصل، خالد مجاہد، تجمل سلیمی، ریاست علی چودھری، آصف بھلی ارباب علم وفن کی ایک کہکشاں آباد تھی۔
سوال: موجودہ منظر؟
جواب: موجودہ علمی، ادبی، مجلسی اور صحافتی منظر نامے میں آصف بھلی ایڈووکیٹ سب سے زیادہ فعال اور متحرک نظر آتے ہیں۔ تاب اسلم، خالد خلیل، زاہد بخاری، طالب بھٹی، رشید آفریں ارشد طہرانی، شاہد ذکی، صدیق رشب، یوسف نیز خالد خلیل، خواجہ اعجاز احمد بٹ، اشفاق نیاز مختلف فورمز پر سرگرم عمل ہیں۔ خالد لطیف کا ’’سٹی میگ‘‘ شہر اقبال کی ثقافتی زندگی کا ترجمان ہے۔ فاروق ثمر صحرائی کی معاونت میں یہ پرچہ تیزی سے ترقی کی منازل طے کررہا ہے، ادبی حوالے سے بھی چیمبر کی خدمات کا حوالہ آبِ زر سے لکھا جائے گا۔ حلقہ ارباب ذوق ختم ہوچکا ہے۔ اور پاکستان رائٹرز گلڈ مسلسل خاموش ہے۔
سوال: سیالکوٹ نے علامہ اقبال اور فیض جیسی نابغہ روزگار شخصیات کو جنم دیا، اقبال اور فیض کے بعد اُس معیار کا ادب تخلیق نہیں ہورہا۔
جواب: آپ کی خدمت میں اقبال ہی کا ایک شعر پیش کررہا ہوں۔ یہی آپ کے سوال کا جواب بھی ہے۔
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا
اقبال نے ہی کہا تھا:
نہیں ہے ناامید اقبال اپنی کشتِ ویراں سے
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی!
وقت سب سے بڑا نقاد ہے۔ بدقسمتی سے بعض اہلِ قلم اپنا مقام خود متعین کرنے لگتے ہیں۔
سوال: آپ نے ’’اکائی‘‘ کے نام سے ایک نئی صنف سخن متعارف کرائی ہے، تفصیلات سے آگاہ فرمائیں۔
جواب: ہمارے یک مصرعی اور سہ مصرعی نظموں کی روایت پہلے سے موجود ہے۔ میں نے یک مصرعی نظموں میں معمولی سی ہیئت کی تبدیلی کرکے اور بہت سی یک مصری نظموں کو ایک مربوط نظم کی شکل دے کر اس نئی صنف سخن کو اکائی کا نام دیا ہے اس لیے کہ اکائی بہت سی اکائیوں کا مجموعہ ہے، ہر ’’اکائی‘‘ کا پہلا لفظ یا الفاظ ایک ہی ہوں گے۔ اس تکرار سے ایک خاص آہنگ پیدا ہوتا ہے۔ اکائی کی تمام اکائیاں ایک ہی بحر میں ہوں گی۔ ’’اکائی‘‘ کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ اسے محافل میں ترنم سے پڑھا بھی جاسکتا ہے۔ یہ نئی صنف سخن صرف حمدو نعت کے لیے مختص ہوگی اکائی کا دامن زیادہ سے زیادہ سلام اور منقبت تک پھیلایا جاسکتا ہے ماہنامہ ’’ادب نعت‘‘ لاہور کی مختلف شماروں میں اکائی کی مثالیں دیکھی جاسکتی ہیں۔
سوال: کیا عوامی سطح پر اس نئی صنفِ سخن کی پذیرائی کے امکانات موجود ہیں؟
جواب: بات یہ ہے کہ
جس دیے میں جان ہوگی وہ دیا رہ جائے گا
مجھے تیقّن ہے کہ اکائی ہوائے خوشگوار کا خنک جھونکا ثابت ہوگی، ارباب علم و فن نے اسے پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھا ہے۔
سوال: نعت کی تاریخ صدیوں پر محیط ہے۔ کن نعت گو شعرا نے آپ کو متاثر کیا۔
جواب: نعت کی تاریخ صدیوں پر نہیں قرنوں پر محیط ہے۔
خدا خود میرِ مجلس بود اندر لامکاں خسروؔ
نعت ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گی، قیامت کا دن بھی عظمتِ مصطفی کے ظہور کا دن ہے۔ تمام الہامی صحیفوں میں محامد مصطفی کے چراغ جل رہے ہیں، قرآن کو ایک نعتِ مسلسل کہا گیا ہے۔
ریاض اسمِ محمدؐ تو خود اک نعتِ مسلسل ہے
ترے الفاظ کیا تیرا قلم، تیری زباں کیا ہے
امیر مینائی، محسن کاکوروی، مولانا احمد رضا خاں، مولانا ظفر علی خاں، اقبال اور ہمارے عہد میں حفیظ تائب، حافظ مظہرالدین، مظفر وارثی، حافظ لودھیانوی، احمد ندیم قاسمی سے عبدالعزیز خالد تک، اور پھر حالیؔ
اے خاصۂ خاصانِ رسل وقت دعا ہے
امت پہ تری آکے عجب وقت پڑا ہے
سوال: نعت کی ادبی حیثیت کے بارے میں کیا کہیں گے؟
جواب: کیا یہ عجیب بات نہیں کہ مرثیہ کی تو ادبی حیثیت کو تسلیم کرلیا گیا لیکن نعت کو محض حصولِ برکت کی چیز سمجھ کر نظر انداز کرنے کی جسارت کی گئی، انیس اور دبیر کی ادبی خدمات سے انکار نہیں۔ لیکن امیر مینائی، محسن کاکوروی، مولانا احمد رضا خاں، مولانا ظفر علی خاں اور اقبال کی نعت کو نصاب کا حصہ کیوں نہ بنایا جاسکا؟ ادبی تاریخ کے مؤرخ پر ابھی اس سوال کا جواب قرض ہے۔ الحمدللہ، نعت کی ادبی حیثیت کو تسلیم کرلیا گیا ہے، بقول حفیظ جالندھری:
بڑے زوروں سے منوایا گیا ہوں
سوال: پاکستان میں غزل کا مستقبل کیا ہے، عصر حاضر میں غزل گو شعرا کے بارے میں کیا کہیں گے؟
جواب: غزل ایک سدا بہار صنفِ سخن ہے، ریختی کا بازار آج بھی گرم ہے، پاکستان میں ہی نہیں بھارت اور جہاں جہاں اردو بولی، سمجھی اور پڑھی جاتی ہے وہاں غزل کا حال بھی روشن ہے اور مستقبل بھی۔ عصر حاضر سے مراد اگر لمحہ موجود ہے تو عرض کروں گا کہ ہمارے نوجوان شعرا ہوائے خوشگوار کا ایک جھونکا ہیں، ان کے ہاں تازگی، شگفتگی اور مضمون آفرینی کی اتنی دلکش مثالیں ملتی ہیں کہ قاری بے ساختہ داد دینے پر مجبور ہوجاتا ہے۔ شہزاد احمد سے لے کر خالد احمد اور نجیب احمد تک غزل گو شعرا کی ایک کہکشاں جگمگا رہی ہے۔ سیالکوٹ کے حوالے سے تاب اسلم اور مشاہد ذکی کا نام لینا چاہوں گا۔ جلیل عالی، جان کاشمیری، اسلم کولسری، اختر شمار، آصف ثاقب، ظفر اقبال، تاب اسلم، میر مشکور حسین یاد، گلزار بخاری، سعداللہ شاہ، رومی کنجاہی، خورشید رضوی، رب نواز مائل، زہیر کنجاہی، تصور اقبال، ریاض مجید، کرامت بخاری، ارشد جاوید، سید ریاض حسین زیدی، امجد اسلام امجد، عطاء الحق قاسمی، اشرف جاوید، ناصر زیدی، ناصر بشیر بہت اچھی غزل کہہ رہے ہیں۔
سوال: سنا ہے آپ پاکستان رائٹرز گلڈ کے رکن ہیں۔ پاکستان رائٹرز گلڈ اس وقت کیا خدمات سرانجام دے رہا ہے؟
جواب: مَیں پاکستان رائٹرز گلڈ کا رکن ہی نہیں بلکہ پاکستان رائٹرز گلڈ سب ریجن سیالکوٹ کا سیکرٹری بھی رہا ہوں۔ آج کل تاب اسلم اس کے سیکرٹری ہیں، سوال کا دوسر احصہ چونکا دینے والا ہے۔ بھائی۔ پاکستان رائٹرز گلڈ کبھی بھی ایک فعال ادبی تنظیم نہیں رہی، ادیبوں اور شاعروں کی اس تنظیم نے آج تک ادیبوں اور شاعروں کے لیے کوئی مؤثر قدم نہیں اٹھایا۔ سنا ہے گلڈ کے آغاز پر ممبران کو پلاٹ دیئے گئے تھے، سیالکوٹ کے بعض لوگوں نے بھی بہتی گنگا میں اشنان کیا تھا۔ آج کل گلڈ ایک مردہ گھوڑا ہے جسے ہزار چابک مارنے سے بھی زندہ نہیں کیا جاسکتا۔ انا ﷲ وانا الیہ راجعون۔
سوال: آپ تحریک منہاج القرآن سے بھی وابستہ رہے ہیں؟
جواب: رہا نہیں، وابستہ ہوں اور یہ سودا زندگی بھر کا سودا ہے۔ میرے شہر کے مردِ قلندر نے کہا تھا:
قوت عشق سے ہر پست کو بالا کردے
دہر میں اسمِ محمدؐ سے اجالا کردے
تحریک منہاج القرآن دہر میں اسمِ محمدؐ سے اجالا کرنے کی تحریک ہے، اتحاد امت اس کے اہداف میں شامل ہی نہیں بلکہ اس کے لیے ہر سطح پر عملی جدوجہد ہورہی ہے، مصطفوی انقلاب ہماری منزل ہے۔ فرقہ واریت کا تحریک منہاج القرآن سے دور کا بھی واسطہ نہیں، تحریک فروغ علم کی بھی تحریک ہے۔ اسلام کے خلاف فکری مغالطوں کا علمی سطح پر جواب دیا جاتا ہے۔ مَیں تحریک کے سرپرست اعلیٰ اور بانی شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کو اپنے عہد کی دانش سے تعبیر کرتا ہوں، تحریک کا سفر عظمتِ رفتہ کی بازیابی کا سفر ہے اور یہ سفر پوری دنیا میں جاری ہے۔
سوال: ادب کے فروغ میں پرنٹ میڈیا اور الیکٹرونک میڈیا کے حوالے سے کیا کہیں گے؟
جواب: ادب کے فروغ میں پرنٹ میڈیا کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں، سچی بات تو یہ ہے کہ پر نٹ میڈیا کے بغیر ادب کا فروغ ممکن ہی نہیں، کتاب ارباب ذوق کی سب سے اچھی دوست ہے، بدقسمتی سے آج پرنٹ میڈیا بھی کتاب کی اشاعت کا فیصلہ میرٹ پر نہیں کرتا بلکہ کتاب کی اشاعت کا فیصلہ عالمی مفادات سے وابستہ ہوکر رہ گیا ہے۔ دھڑا دھڑ کتابیں شائع ہورہی ہیں۔ انتہائی دلکش اور خوبصورت کتابیں جو شائع ہونے کے ساتھ ہی کتابوں کے انبار میں دفن ہوجاتی ہیں۔ الیکٹرونک میڈیا ادب کے فروغ اور اس کی ترویج کے لیے انتہائی خدمات سرانجام دے سکتا تھا لیکن الیکٹرونک میڈیا ادیبوں اور شاعروں کے ہاتھ میں نہیں۔ مفادات کے قیدیوں کے ہاتھ میں ہے۔ سلسلہ یہاں بھی زر کی چمک کا ہے۔ نوٹوں کی برسات پر پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا کا کاروبار چلتا ہے اوپر سے نیچے تک ہر شخص مال بنانے کے چکر میں ہے۔ کرپشن نے پرنٹ میڈیا اور الیکٹرونک میڈیا کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ یہاں میں ایک بات کی وضاحت کرتا چلوں۔ جب الیکٹرونک میڈیا نیا نیا متعارف ہوا تھا تو کہا جاتا تھا کہ اب پرنٹ میڈیا کی اہمیت ختم ہوکر رہ جائے گی۔ لیکن خدا کا شکر ہے یہ خدشہ بے بنیاد ثابت ہوا ہے۔ اخبار اور رسائل پہلے سے بھی زیادہ تعداد اور مقدار میں شائع ہورہے ہیں۔ کتابوں کی اشاعت کی رفتار بھی حوصلہ افزا ہے۔ زندہ کتاب کبھی نہیں مرتی زندہ حروف لکھنے والے تخلیق کار بھی ہمیشہ زندہ رہتے ہیں۔
سوال: شاعری میں آپ نے زانوئے تلمذ کس کے آگے طے کیا، مطلب ہے آپ نے شاعری میں اصلاح کس سے لی؟
جواب: مرے کالج میں آسی ضیائی صاحب ہمارے اردو آپشنل کے استاد تھے، اُن دنوں آپ اپنے نام کے ساتھ رامپوری بھی لکھا کرتے تھے۔ شاعری پر آپ سے اصلاح لینا شروع کی۔ یہ سلسلہ تقریباً 50 برس پر محیط ہے۔ دو چار برس کی بات نہیں۔ اتنی مہربان اور شفیق شخصیت، اللہ انہیں کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے۔ لاء کالج لاہور میں داخلہ لیا تو مجلسِ ادارت میں گوجرانوالہ کے بشیر انصاری (اب مولانا بشیر انصاری) بھی شامل تھے، شاعر بھی ہیں۔ ان سے دوستی ہوگئی اور انہی کے توسط سے آغا صادق (ساہیوال) سے تعارف ہوا اور ان سے بھی شاعری پر اصلاح لیتا رہا۔ ایک مرتبہ سیالکوٹ بھی تشریف لائے۔
حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھے
سوال: نئی نسل کے لیے کوئی پیغام۔
جواب: میرا پیغام محبت ہے جہاں تک پہنچے۔
پاکستان ہمارا گھر ہے، پاکستان ہماری پہچان ہے، پاکستان ہماری شناخت ہے۔ ہم کومٹڈ ہیں ارضِ وطن کے ایک ایک ذرے سے، ان دریائوں سے، ان پہاڑوں سے اور اس خطہ پاک پر بسنے والے مفلوک الحال انسانوں سے، یہ کومٹ منٹ غیر متزلزل اور غیر مشروط ہے۔
کون اربابِ سیاست کو یہ سمجھائے ریاضؔ
یہ شکستہ سا مکاں، جیسا بھی ہے، اپنا تو ہے
پاکستان سے محبت کرو کہ یہ عالمِ اسلام کی پہلی دفاعی لائن ہے۔ فصیلِ ارضِ وطن پر چراغ بن کر جاگتے رہو۔
سوال: ان دنوں آپ کی کیا مصروفیات ہیں؟
جواب: شہر اقبال کی مجلسی، علمی اور ادبی زندگی اور میرے درمیان بڑھاپے کی دیوار حائل ہوگئی ہے۔ بڑھاپا تیزی سے حملہ آور ہوا ہے۔ شوگر اور بلڈ پریشر نے مجھے بے بس کردیا ہے۔ ٹانگوں میں سکت نہیں رہی، مَیں نے زندگی میں سائیکل تک استعمال نہیں کی۔ شہر سے کینٹ تک پیدل جاتا اور پیدل آتا لیکن اب چند قدم چلتا ہوں تو ٹانگیں کانپنے لگتی ہیں، گھر کی چار دیواری تک محدود ہوکر رہ گیا ہوں۔ اللہ رب العزت کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ میرا قلم کسی ضعف اور نقاہت کا شکار نہیں ہوا۔ ان دنوں غزل اور نعت کے حوالے سے اپنا تخلیقی کام سمیٹ رہا ہوں۔ بیک وقت دس بارہ مسودہ جات کو آخری شکل دے رہا ہوں جن میں نعت کے علاوہ حمد کے دو مجموعے، غزل کے دو مجموعے، حمدیہ اور نعتیہ قطعات کے دو مجموعے اور ملی شاعری کا ایک مجموعہ بھی شامل ہے۔ دعا کیجئے کہ یہ مجموعے میری زندگی میں شائع ہوجائیں۔ ’’طلوع فجر‘‘ پریس میں ہے۔ یہ بارہ ربیع الاول کے حوالے سے 500 بنود پر مشتمل ایک طویل نعتیہ نظم ہے۔
فضائے نعت میں اڑتے ہوئے نہیں تھکتا
مرا قلم بھی ہے جبریل کے پروں کی طرح
ممتاز نعت نگار اور معروف غزل گو ریاض حسین چودھری سے غیر رسمی گفتگو