انٹرویو: فاروق قمر صحرائی، (سٹی میگ)- نعت کے تخلیقی زاویے
انٹرویو: فاروق قمر صحرائی
(سٹی میگ:16 -31 اکتوبر 2010ئ)
ریاضؔ کا ’’ریاض‘‘ نصف صدی پر محیط ہے۔ اس دوران میں آپ دنیائے ادب سے ایک دن کے لیے بھی غیر حاضر نہیں رہے۔ ریاض حسین چودھری وطنِ عزیز کے ممتاز نعت نگار ہی نہیں بلکہ ایک معروف غزل گو بھی ہیں۔ ان سے ایک غیر رسمی ملاقات میں ان کی مدحت نگاری کے حوالے سے جو گفتگو ہوئی وہ سوال و جواب کی صورت میں نظر قارئین ہے۔
س: شاعری کیا ہے اور کیوں کی جاتی ہے؟
ج: کسی حسابی کلیے کی طرح شاعری کی تعریف ممکن نہیں۔ تخلیقِ حسن aesthetic creativity شاعری کا بنیادی وصف ہے۔ شاخِ آرزو پر جذبوں کے مچلنے اور پھر ان جذبوں کے خوشبو بن کر مضرابِ دل پر نغمے بکھیرنے کو شاعری سے تعبیر کیا جاسکتا ہے۔ رہا سوال کہ شاعری کیوں کی جاتی ہے تو بھائی! اندر کی روشنی کو تو باہر آنا ہی ہوتا ہے۔ خوشبو کو کسی چار دیواری میں بند تو نہیں کیا جا سکتا۔ شاعری اندر کی روشنی اور خوشبو سے ہی ابلاغ پاتی ہے۔
س: کیا شاعر میں خداداد صلاحیتوں کا ہونا ضروری ہے؟
ج: بہت ضروری ہے۔ کوئی شخص شاعر ہوتا ہے یا نہیں ہوتا۔ یہ ایک خداداد صلاحیت ہے جو کتابیں پڑھ کر یا ڈگریوںکے انبار لگا کر نہیںسیکھی جاسکتی۔البتہ شعوری طور پر ان خداداد صلاحیتوں کو نکھارا اور سنوارا جاسکتا ہے۔ البتہ شاعری کے اصول اور قواعد و ضوابط ضرور سیکھے جاسکتے ہیں ان کا سیکھنا آمد اور آورد دونوں طرح کی شاعری کے لئے ضروری قرار دیتا ہوں۔
س: آپ نے شعر کہنے کا آغاز کب کیا؟
ج: چھٹی یا ساتویں میں پہلی نظم کہی تھی۔ آغاز بچوں کے لیے نظمیں لکھنے سے ہوا۔ ’’لیل و نہار‘‘ اور ’’قندیل‘‘ کے علاوہ بچوں کے رسائل تعلیم و تربیت، کھلونا، علم و ادب اور دیگر رسائل میں میری بے شمار نظمیں شائع ہوئیں۔ بچوں کے لیے پہلی نظم ’’بڑھا چل بڑھا چل تو اے نوجواں‘‘ 1959ء میں پھلواری کراچی میں شائع ہوئی۔
س: عام آدمی کیسے شاعر بن سکتا ہے؟
ج: شاعر بنتے نہیں بلکہ پیدا ہوتے ہیں۔ اوپر میں اس حوالے سے تفصیلی گفتو کرچکا ہوں۔
س: آپ کی پہلی نعت کب اور کس رسالے میں شائع ہوئی؟
ج: میری نعت پہلی بار نوائے وقت کے ہفت روزہ قندیل میں شائع ہوئی تھی۔ شرقی بن شائق قندیل کے ایڈیٹرتھے۔
س: اس نعت کا کوئی شعر عنایت فرمائیں۔
ج:
ریاضؔ نامہ سیہ ہے اپنا مگر تمنا ہے عاصیوں کی
ہو رقصِ رحمت مرے چمن میں حضورؐ، رقصِ شرر سے پہلے
س: سنِ اشاعت؟
ج: سال یاد نہیں۔ عرض کرتا چلوں کہ ان دنوں اخبارات کے سنڈے میگزین شائع کرنے کا رواج نہیں تھا۔
س: کیا آپ سمجھتے ہیں کہ شاعر کے لیے اصلاح ضروری ہے؟ آپ نے کس سے اصلاح لی؟
ج: شاعر ہی کیا ہر شخص کے لیے اصلاح کی ضرورت ہے۔ استاد کی مدد کے بغیر اعتماد سے آگے نہیں بڑھا جاسکتا۔ ہر قدم پر ٹھوکریں کھانے سے بہتر ہے کہ کسی ماہرِ فن کے آگے زانوئے تلمذ طے کیے جائیں۔ آسی ضیائی جو مرے کالج میں اردو ادب کے استاد تھے میں ان سے باقاعدہ اصلاح لیتا رہا ہوں۔ استادی شاگردی کا یہ دورانیہ تقریباً نصف صدی پر محیط ہے۔ آپ رامپور (بھارت) میں پیدا ہوئے۔ علی گڑھ سے ایم اے کیا۔ ہجرت کے بعد آپ شہرِ اقبال کے مضافاتی گائوں فتح گڑھ میں رہائش پذیر ہوئے۔ اس دوران مَیں تھوڑے عرصے کے لیے آغا صادق سے بھی اصلاح لیتا رہا ہوں۔ آغا صادق ایک بار سیالکوٹ بھی تشریف لائے تھے۔
س: کیا آپ کی شعری سرگرمیاں صرف مشاعروں تک ہی محدود ہیں؟
ج: جی نہیں! مشاعرہ تو محض ابلاغ کا ایک وسیلہ ہے اور ہماری ثقافتی اور مجلسی زندگی کی آبرو ہے۔ مشاعروں کے علاوہ ہفتہ وار تنقیدی نشستوں کا آغاز بھی کیا۔ پاکستان نیشنل سنٹر ہماری ادبی سرگرمیوں کا مرکز تھا۔ اعزاز احمد آذر پہلے پریذیڈنٹ ڈائریکٹر تھے۔ بعد ازاں خالد خلیل، ضرار محمود ملک، ارشد طہرانی ادبی محافل کے انعقاد میں پیش پیش ہوتے۔ تاب اسلم پاکستان رائٹرز گلڈ کے سیکرٹری بھی تھے۔ نئی کتابوں کی تقریباتِ رونمائی، مختلف شعراء اور افسانہ نگاروں کے ساتھ شام منانے کی روایت، غرض ساری عمر اسی دشت کی سیاحی میں گزری ہے۔
س: آپ کی کون کون سی کتابیں شائع ہوچکی ہیں؟
ج: ’’خون رگِ جاں‘‘ (ملی نظمیں) 1970ء میں شائع ہوئی۔ نعتیہ مجموعے ’’زرِ معتبر‘‘، ’’رزق ثنائ‘‘، ’’تمنائے حضوریؐ‘‘، ’’متاعِ قلم‘‘، ’’کشکولِ آرزو‘‘ اور ’’خلدِ سخن‘‘۔ ساری عمر دوسروں کی کتابوں کی تقریباتِ رونمائی کا اہتمام کرتا رہا لیکن اپنی کسی ایک کتاب کی بھی تقریبِ رونمائی منعقد نہ ہوسکی۔ البتہ گزشتہ دنوں چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کی جانب سے میرے ساتویں نعتیہ مجموعے ’’خلدِ سخن‘‘ کی تقریبِ پذیرائی منعقد ہوئی، ’’کفر ٹوٹا خدا خدا کرکے‘‘۔
س: مزید اشاعتی پروگرام؟
ج: اپنا کام سمیٹ رہا ہوں۔ کتابوں کے مزید دو مسودے تیار ہوچکے ہیں۔ ’’طلوعِ فجر‘‘ ایک طویل نعتیہ نظم ہے۔ جو پانچ سو بندوں پر مشتمل ہے۔ اس کا موضوع 12 ربیع الاول ہے۔ جو تاریخِ کائنات کا سب سے بڑا دن ہے۔ غزل کی ہیئت میں کہی جانے والی نعتوں کا ایک مجموعہ ’’غزل کا سربکف‘‘ بھی اشاعت کے لیے تیار ہے۔ غزلوں کو بھی علیحدہ کتابی صورت میں جمع کررہا ہوں۔ دعا کیجئے جتنا کام کیا ہے وہ سب میری زندگی میں ہی کتابی صورت میں سامنے آجائے۔
س: آپ نے شروع میں جو غزلیں کہیں ان کے چند اشعار جو آج بھی آپ کو یاد ہوں۔
ج:
میں جی رہا ہوں زندہ مسائل کی کوکھ میں
اپنے بدن پہ سوچ کی چادر لپیٹ کر
غزلوں کو ’’سرِ صلیبِ بدن‘‘ کے نام سے ترتیب دیا تھا۔ جناب عارف عبدالمتین نے اس پر دیباچہ بھی تحریر کیا تھا۔ لیکن بدقسمتی سے یہ کتاب شائع نہ ہوسکی۔ چاہتا ہوں کہ ’’سرِ صلیبِ بدن‘] شائع ہوجائے اور عارف عبدالمتین کا دیباچہ محفوظ ہوجائے۔
س: دورِ حاضر کے کس شاعر نے آپ کو متاثر کیا ہے؟
ج: دورِ حاضر سے مراد اگر لمحۂ موجود نہیں تو عرض کروں گا کہ غالب اور اقبال کے بعد ساحر لودھیانوی نے مجھے متاثر کیا ہے۔ مزاحمتی شاعر کا شعور زیادہ تر انہی کی عطا ہے۔
س: کیا ادب کا کوئی مقصد ہونا چاہیے؟
ج: کائنات کی کوئی شے بھی مقصدیت سے خالی نہیں۔ ادب برائے ادب کے فلسفے کو مسترد کرتا ہوں۔ ادب برائے زندگی برائے وطن کا قائل ہوں۔ وطن عزیز پاکستان دو قومی نظریے کی بنیاد پر وجود میں آیا۔ پاکستان اسلام کا گہوارہ ہے۔ یہ عالم اسلام کی پہلی ایٹمی طاقت ہے۔ یہ مسلم امہ کی پہلی دفاعی لائن ہے۔ اور غلامانِ محمدؐ کا حصارِ آہنی ہے۔
س: کیا آپ اپنی شاعری سے مطمئن ہیں؟
ج: اطمینان کا دوسرا نام تخلیقی سطح پر اپنی موت کا اعلان کرنا ہے۔
س: غزل کے علاوہ آپ نے کن اصناف میں شاعری کی ہے؟
ج: غزل اور نعت کا آغاز ساتھ ساتھ ہوا۔ البتہ ابتداء میں غزل زیادہ کہی۔ سید آفتاب احمد نقوی کے مشورے پر نعت کی طرف خصوصی توجہ دی۔ غزل اب بھی ہوتی ہے لیکن بہت کم، تخیل طوافِ گنبدِ خضرا میں مصروف رہتا ہے۔ سوچ درِ اقدس پہ سرنگوں ہے۔ غزل کی ہیئت میں نعت کہنے کے علاوہ نظم معریٰ، نظم آزاد اور پابند نظم میں بھی نعت کہی ہے۔ ثلاثی اور نعتیہ قطعہ نگاری کی طرف خصوصی توجہ دی ہے۔
س: آپ کا آئیڈیل؟
ج: آقائے محتشمؐ کی ذاتِ اقدس کے علاوہ بھی کیا کوئی اور شخصیت آئیڈیل ہوسکتی ہے؟
س: آپ کا پسندیدہ رنگ؟
ج: گنبدِ خضرا کا رنگ۔ لباس سفید پسند کرتا ہوں۔
س: اپنی نعت کا کوئی نمائندہ شعر سنایئے؟
ج:
فضائے نعت میں اڑتے ہوئے نہیں تھکتا
مرا قلم بھی ہے جبریل کے پروں کی طرح
س: دنیائے شعر میں آزاد شاعری کا کیا مقام ہے؟
ج: آزاد شاعری سے اگر آپ کی مراد آزاد نظم ہے تو بھائی وہ تو اپنا وجود منواچکی ہے۔ اگر مراد نثری نظم ہے تو میں اظہار پر پہرے بٹھانے کا قائل نہیں ہوں۔ بقول امجد اسلام امجد:
جس دیے میں جان ہوگی وہ دیا رہ جائے گا
س: آپ جدت پسند ہیں یا روایتی شاعری کو پسند کرتے ہیں؟
ج: وہ جدت بے معنیٰ ہے جس کی جڑیں اپنی روایت میں پیوست نہیں۔
س: کس ادبی تنظیم سے تعلق ہے؟
ج: حلقۂ اربابِ ذوق اور پاکستان رائٹرز گلڈ
س: الیکٹرانک میڈیا کے اس دور میں اردو ادب کی طرف قارئین کا رجحان کم ہورہا ہے، ایسا کیوں ہے؟
ج: بظاہر ایسا ہی لگتا ہے کہ الیکٹرانک میڈیا نے پرنٹ میڈیا کو پیچھے دھکیل دیا ہے۔ قارئین کی بجائے ناظرین کی تعداد بڑھ رہی ہے لیکن حقیقت میں ایسا نہیں ہے۔ اخبارات و جرائد بدستور شائع ہورہے ہیں۔ کتابیں بڑی تعداد میں شائع ہورہی ہیں۔ الیکٹرانک میڈیا کے بارے میں بھی ٹیکنیکل کتابیں شائع ہورہی ہیں۔ یہ درست ہے کہ یہ زمانہ بیل گاڑی کا نہیں بلکہ راکٹ کا دور ہے۔ زندگی تیزی سے آگے بڑھ رہی ہے۔ انسان کو کتاب کی ضرورت ہر دور میں رہے گی۔ نیوز چینلز کی بھرمار کے باوجود اخبارات بڑی تعداد میں شائع ہورہے ہیں۔ میں الیکٹرانک میڈیا سے خوفزدہ نہیں ہوں۔
س: اچھا شاعر بننے کے لیے کون کون سے عوامل ضروری ہے؟
ج: شعر گوئی عطیۂ خداوندی ہے۔شعر گوئی کی صلاحیتوں کو نکھارنے اور سنوارنے کے لیے استاد کی رہنمائی، مشقِ سخن اور مطالعہ بہت ضروری ہے۔
س: آپ کے خیال میں شاعری کا مستقبل کیا ہے؟
ج: تابناک، بہت ہی تابناک۔
س: ان دنوں ہونے والی شاعری کا معیار کیا ہے؟
ج: ان دنوں بہت ہی خوبصورت اور جاندار شاعری ہورہی ہے۔ تازہ کاری کی عمدہ مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔
س: اصغر سودائی سے اختلافات کی نوعیت کیا تھی؟
ج: اصغر سودائی میرے قابلِ احترام پیش رو تھے۔ اختلافات اصولی تھے، ذاتی نوعیت کے نہیں تھے۔ خواجہ طفیل محمد کی کتاب ’’تحریکِ پاکستان میں سیالکوٹ کا حصہ‘‘ میں تمام تفصیل درج ہے۔ سودائی صاحب کے احترام میں کبھی فرق نہیں آیا۔ بڑی محبت سے ملتے اور حوصلہ افزائی فرماتے۔ جب مجھے رزقِ ثناء پر صدارتی ایوارڈ ملا تو لاہور میں مبارکباد کا واحد ٹیلی گرام مجھے اصغر سودائی صاحب کی طرف سے موصول ہوا تھا، حق مغفرت کرے۔
س: آپ نے پاکستان بنتے دیکھا؟ اس وقت آپ کی عمر کیا تھی؟
ج: قیامِ پاکستان کے وقت میری عمرتقریباً چھ سال تھی اور میں غالباً پہلی یا دوسری جماعت کا طالب علم تھا۔ یہ ایک مشنری سکول تھا اور ہمارے گھر (رنگپورہ روڈ) کے بالکل سامنے تھا جو قیامِ پاکستان کے بعد بند ہوگیا۔ مجھے دھارووال سکول میں داخل کروادیا گیا۔ قیامِ پاکستان کی چند یادیں ذہن میںمحفوظ ہیں۔ مثلاً میں رنگ ساز کی دکان پر کھڑا ہوں اور مسلم لیگ کا سبز پرچم رنگوا رہا ہوں۔ دکان کے سامنے ایک گوردوارہ ہے جس کے دروازے پر ننگی کرپان لے کر ایک سکھ پہرہ دے رہا ہے۔ مجھے یاد ہے کہ ہندوئوں اور سکھوں کے مکانوں کو آگ لگی ہے۔ لوگ لوٹ مار میں مصروف ہیں۔ مجھے یہ بھی یاد ہے جموں کی طرف سے آنے والے مہاجرین جموں روڈ سے گزر رہے ہیں۔ مہاجرین کو عارضی طور پر سکولوں وغیرہ میں ٹھہرایا جارہا ہے۔ مہاجرین کی زبانی ظلم کی داستانیں سنتے تو خون کھولنے لگتا۔ ایک عورت جو اپنا ذہنی توازن کھو چکی تھی ہماری گلی میں سے گزرا کرتی تھی۔ وہ بلند آواز میں پکارتی ’’فرزند دلوں کے بند‘‘ اس کے آنسو کبھی تھمتے ہی نہ تھے۔ جموں میں اس کے جوان بیٹوں کو شہید کردیا گیا تھا۔ راتیں ہم جاگ کر گزارا کرتے تھے کیونکہ ہندوئوں اور سکھوں کے حملے کا ڈر تھا۔ کبھی کبھی کرفیو بھی نافذ کردیا جاتا تھا۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ ہمارے محلے میں ایک ہی گھر میں ریڈیو تھا جہاں میں ابا جان کے ساتھ خبریں سننے جایا کرتا تھا۔ مجھے فخر ہے کہ میرے بزرگوں نے بھی پاکستان بنانے میں بھرپور حصہ لیا۔ بعد میں مجھے گھر کے بزرگوں سے معلوم ہوا کہ جب 1944ء میں قائداعظم سیالکوٹ تشریف لائے تھے تو جلسہ گاہ مولا بخش کے تالاب کے قریب ہمارے نو تعمیر شدہ مکان میں قائداعظم کو ٹھہرانے کا پروگرام تھا لیکن بعد میں قائداعظم کو چھائونی میں ٹھہرایا گیا۔ ہمارے مکان میں قائداعظم کے وفد کے دیگر اراکین نے قیام کیا۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ قائداعظم کی وفات پر گھر کے بزرگ دھاڑیں مار مار کر رو رہے تھے اور ہمارے کارخانے کے باہر ہر آنے جانے والے کے بازو پر سیاہ پٹیاں باندھی جارہی تھیں۔
س: عشقِ حقیقی اور عشقِ مجازی میں کیا فرق ہے؟ اپنا نقطۂ نظر بیان کیجئے۔
ج: جو فرق خالق اور مخلوق میں ہے۔ وہی فرق عشقِ حقیقی اور عشقِ مجازی میں ہے۔
س: اپنی فیملی کے بارے میں کچھ بتائیں؟
ج: میری ماموں زاد میری شریکِ حیات ہیں۔ چار بیٹیاں اور ایک بیٹا مدثر، بہو اور ان کی دو بچیاں۔ مدثر کے بارے میں اپنے آقاؐ کے حضور التماس گزار ہوں۔
حضورؐ، میرا مدثر بھی گھر سے نکلا ہے
تلاشِ رزق میں بارش کے پانیوں کی طرح
س: شہرِ اقبال کا ادبی منظر نامہ
ج: حلقۂ اربابِ ذوق کا روشن ماضی باقی رہ گیا ہے۔ تاب اسلم پاکستان رائٹرز گلڈ سیالکوٹ کے سیکرٹری ہیں۔ بزمِ دوستانِ ادب سرگرمِ عمل ہے۔ زاہد بخاری، رشید آفریں، مخدومہ بخاری، طالب بھٹی، منصور خاور، محمد آصف بھلی، خواجہ اعجاز احمد بٹ، خالد خلیل، وارث رضا، شاہد ذکی، طارق اسماعیل، فاروق قمر صحرائی اور یوسف نیر متحرک دکھائی دیتے ہیں۔ اللہ ان کے حوصلوں کو بلند رکھے۔ تاب اسلم ’’یدِ بیضا‘‘ کے نام سے ایک ادبی پرچہ نکالتے ہیں۔ خالد لطیف صاحب ایک خوبصورت ثقافتی پرچے کے ایڈیٹر ہیں اور ادبی سرگرمیوں کو بھی بھرپور کوریج دیتے ہیں۔ ریڈیو پاکستان سیالکوٹ بھی ادبی پروگرام نشر کرنے میں پیش پیش رہتا ہے۔