دنیا کے بتکدوں میں پہلا وہ گھر خدا کا- نعت کے تخلیقی زاویے
ریاض حسین چودھری کے حرمَین شریف میں حاضری کے وہ لمحات جن سے ان کے شعور نعت کو فروغ تجلیٰ نصیب ہوا
Umra and Riaz Ch's Stream of Consciousness
(سیلانِ آگہی)
بس سے اترتے وقت ایک لمحہ کے لیے قدم رک گئے، چشم پرنم نے جھک کر مکہ مکرمہ کی سرزمین مصور کی بلائیں لیں۔ دھڑکتے دل نے خاکِ منور کو سلامِ شوق پیش کیا۔ ہر دھڑکن نے اپنے ہونٹوں پر حروفِ حمد سجالیے، دامن آرزو چاند ستاروں سے بھر گیا۔ شاخ تمنا پر کرنوں کے پھول کھل اٹھے۔سجدے جبین شوق میں ٖمچلنے لگے۔ لبیک اللہم لبیک کے الفاظ جگنو بن کر فضائوں میں پھیل گئے، ہونٹ خشیت الہٰی سے کپکپارہے تھے بدن شاخ نازک پر بنے آشیانے کی طرح لرز رہا تھا۔
اے صناع ازل، اے رازق انس و جاں، اے مالک روز جزا، اے معبود حقیقی، اے میرے پیارے محمدؐ کے رب! قدم قدم میرا تو سر بھی اس قابل نہیں کہ سرزمین حرم کے لمسِ جاوداں سے ہمکنار ہوسکے۔ آسمان کی طرف التجائیہ نظروں سے دیکھا لیکن زمین اور آسمان کے درمیان آنسوئوں کی ان گنت دیواریں حائل ہوچکی تھیں۔ تشکر و امتنان کی خوشبو سانسوں میں رچ بس گئی۔
اللہ رب العزت نے ہدایت آسمانی کی آخری دستاویز، صحیفہ انقلاب قرآن مجید، فرقان حمید میں اس شہر دلنواز کی قسم کھائی ہے کہ شہر محبوبؐ کی اس لیے قسم کھاتا ہوں کہ میرا محبوبؐ اس میں چلتا پھرتا دکھائی دیتا ہے۔ اس خطہ نور و نکہت نے میرے محبوبؐ کے قدموںکو بوسہ دینے کا اعزاز لازوال حاصل کیا ہے۔ میں اسی سر زمین مقدس پر پلکوں کے بل چلنے کا آرزو مند تھا۔
سامنے رنگ و نور کی ایک دنیا آباد تھی، کشتِ آرزو میں رحمت کی باد بہاری چل رہی تھی، آسمانوں سے کہکشائوں کے جھرمٹ اتر کر خالق ارض و سما کی ربوبیت کا اعلان کررہے تھے، میں اپنا بیگ اٹھائے حرم شریف کی طرف بڑھ رہا تھا۔ مجھے شوق فراواں کی ہمرکابی میسر تھی۔ یہ خیال دامن دل سے لپٹ گیا کہ حرم کی انہی دلکش فضائوں میں میرے حضورؐ بھی سانس لیتے ہوں گے۔ انہی پہاڑوں نے میرے آقاؐ کے چہرۂ انور کی زیارت کی ہوگی۔ آقا علیہ السلام کا مقدس بچپن انہی گلیوں میں گزرا ہوگا۔ متانت، شائستگی اور سنجیدگی کے الفاظ کی تخلیق انہیؐ کی گردِ پا سے ہوئی ہوگی، یہی چاند میرے آقاؐ کی انگشت مبارک کے اشارے پر وجد میں آگیا ہوگا اور شق القمر کا معجزہ رونما ہوا ہوگا۔ اسی شہر مقدس کے مضافات میں غار حرا کی بساطِ ادب بچھی ہوگی۔ اللہ کی حاکمیت کے پرچم انہی منڈیروں پر لہرائے گئے ہوں گے، یہ سرزمین ملائکہ کی سجدہ گہ ہے، یہ اصحاب رسول کی معطر، معنبر اور مقدس سانسوں کی امین ہے، جان نثاری کے ان گنت پھول انہی فضائوں میں کھلے ہوں گے۔ یہ قریۂ محبت تاریخ کے ایک ایک لمحے کا آئینہ دار ہے۔ قیامت تک اس سرزمین مقدس پر عقیدتوں کی شبنم گرتی رہے گی۔ ان مہکتی ہوئی فضائوں میں ہچکیوں اور سسکیوں کی ان گنت دنیائیں آباد رہیں گی، یہ رسول اول و آخرؐ کا محبوب شہر ہے۔
حرم شریف کے اردگرد کسی ہوٹل میں سر چھپانے کو جگہ نہ ملی، یہ سعودی عرب میں 28 ویں شب رمضان تھی۔ رات غالباً نصف سے زیادہ گذر چکی تھی حرم اقدس کے باب ام ہانی کے سامنے کھڑا سوچ رہا تھا کہ اب کیا کروں۔ رمضان کے آخری ایام میں تو فرزندان توحید جوق در جوق ادھر کھچے چلے آتے ہیں، کہاں جائوں گا، یہ خیال دل میں آتا تھا کیونکہ جہاں جانا چاہتا تھا وہاں تک تو آچکا تھا۔ میں حالت احرام میں تھا اور عمرہ کی ادائیگی کا فریضہ جلد سے جلد ادا کرنا چاہتاتھا۔ زندگی ہی میں کفن بدن پر سجاکر جب انسان اپنے پروردگار کے حضور حاضر ہوتا ہے تو زمینی رشتے کچے دھاگوں کی طرح ایک ایک کرکے ٹوٹ جاتے ہیں۔ سو میرے ساتھ بھی یہی ہوا۔ فکری اور نظری رشتے خون کے رشتوں پر غالب آچکے تھے، قریب ہی ایک منی چینجر کی دکان نظر آئی۔ کرنسی تبدیل کروائی۔ پیاس ستا رہی تھی رک کر ایک دکان سے ملک شیک کا ایک گلاس پیا تو جان میں جان آئی۔ ایک بڑے ہوٹل کے کائونٹر پر منیجر کو ایک رات کے تین سوریال پیش کیے لیکن وہ مسکرا کر کہنے لگا عید کے بعد آیئے گا۔ اپنے سامنے خنک پانی کا کٹورہ دیکھ کر صدیوں سے پیاسے انسان پر کیا گذرتی ہے۔ کچھ یہی کیفیت میری بھی تھی۔ اللہ کا گھر اتنا قریب تھا کہ غلاف کعبہ پکڑ کر بارگاہ خداوندی میں ہچکیوں اور سسکیوں کی زبان میں اپنی التجائیں پیش کرنے والے زائرین کی آنکھوں سے گرنے والے آنسوئوں کی آواز تک سنائی دے رہی تھی۔ کشکول آرزو اشک ہائے ندامت سے لبریز تھا لیکن ابھی عشق کا امتحان باقی تھا۔ چند قدم چلا تھا کہ زمین پر آلتی پالتی مارے چند ورکرز جو اورنج رنگ کی وردی میںملبوس تھے کھانا کھارہے تھے۔ ان کے مسکراتے ہوئے چہروں پر مجھے پاکستان کا لفط لکھا ہوا دکھائی دیا۔ وطن کی مٹی کی خوشبو جگنو بن کر سانسوں میں اتر گئی۔ میں نے اردو زبان میں اپنا مسئلہ ان کے سامنے رکھا، واقعی وہ میرے ہم وطن نکلے، ایک صاحب نے جوتے رکھنے والے بلاکوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اپنا بیگ وہاں رکھئے۔ اطمینان سے عمرہ ادا کیجئے صبح تک آپ کے بیگ کو کوئی ہاتھ بھی نہیں لگائے گا۔ البتہ جوتوں کی ضمانت نہیں دی جاسکتی۔ اس وقت میں نے نئی ہوائی چپل پہن رکھی تھی۔ ڈوبتے کو تنکے کا سہارا۔میں نے ان احباب کا شکریہ ادا کرنے کے بعد اپنا بیگ سپرد خدا کیا اور باب ام ہانی کے راستے حرم شریف میں داخل ہوگیا۔
میں نہیں جانتا کہ بیت اللہ پر پہلی نظر کب پڑی، مجھے نہیں معلوم کہ اندر کی دنیا کس انقلاب سے روشناس ہوئی، تجلیات الہٰی کا مینہ برس رہا تھا۔ ذہن کی سرکشی پر رحمت کی پھوار پڑ رہی تھی۔ روح آلودگی سے پاک ہورہی تھی۔ ندامت کے پسینے سے سارا جسم پہلے ہی شرابور ہورہا تھا، تمام اشک وضو کا پانی بن گئے، میں گم سم کھڑا خانہ کعبہ کی طرف دیکھ رہا تھا۔ سنا بھی تھا اور پڑھ بھی رکھا تھا کہ بیت اللہ پر پہلی نظر پڑتے ہی جو دعا مانگی جائے اسے خلعت قبولیت سے نوازا جاتا ہے لیکن ہونٹوں پر آنے سے پہلے ہی تمام دعائیں آسمان کی طرف پرواز کرچکی تھیں۔ آنکھوں نے ردائے حیرت میں منہ چھپالیا۔لہو کی ایک ایک بوند کاسہ بکف تھی، اپنے ہونے کا احساس تک جاتا رہا تھا۔ میں کون ہوں؟ کہاں سے آیا ہوں؟ کس لیے آیا ہوں؟ رب کعبہ کی قسم میں سب کچھ بھول چکا تھا۔ حتی کہ یہ بھی یاد نہ رہا کہ یہ رمضان کا مہینہ ہے، سحری کا وقت قریب ہے اور مجھے روزہ بھی رکھنا ہے، سچ پوچھئے تو رحمت خداوندی کے حصار نور میں تھا۔ میرے اردگرد بندگان خدا کا ایک ہجوم تھا۔ ہر شخص اپنے من کی دنیا میں ڈوبا ہوا تھا۔ امن اور عافیت کی باد نسیم محوخرام تھی ادب اور احترام کی فضا نے بیت اللہ کے گرد عقیدتوں کا ہالہ سا بنا رکھا تھا۔ آنکھیں طواف کعبہ میں مصروف تھیں اور حجر اسود کے بوسے لے رہی تھیں، صدیوں نے اپنے پر سمیٹ لیے۔
چشتم تصور میں پہلا منظر ابھرتا ہے
حضورؐ کے جد امجد سیدنا ابراہیم علیہ السلام اور ان کے فرزند ارجمند سیدنا اسماعیل علیہ السلام بیت اللہ کی تعمیر مکمل کرچکے ہیں، حضرت ابراہیم علیہ السلام ایک پتھر پر کھڑے ہوکر اپنے رب کے حضورؐ نبی آخرالزماں کے ظہور کی دعائیں مانگ رہے ہیں، یہ خوش نصیب پتھر اپنے مقدر کے ستارے کو یوں چمکتا دیکھ کر جھوم اٹھتا ہے، اپنے بدن پر حضرت ابراہیم علیہ السلام کے قدموں کے نشان ہمیشہ کے لیے محفوظ کرلیتا ہے، نسبت رسول کی روشنی چاروں طرف پھیل جاتی ہے اور ہم مقامِ ابراہیم پر نوافل اداکرتے ہیں۔
تاریخ کے اوراق الٹے جارہے ہیں۔
حلیمہ کے مقدر کا ستارااوج ثریا سے بھی پرے چمک رہا ہے، کائنات کی دولت اپنی گود میں سمیٹے حرم شریف میں آتی ہے۔ چاہتی ہے کہ نومولود کو حجر اسود کا بوسہ دلائے۔ حجر اسود وجد میں آجاتا ہے۔ اپنے بخت رسا کی بلندیوں کو رشک سے دیکھتا ہے اور دیوار کعبہ سے نکل کر سیدہ آمنہؓ کے لالؐ کے لب اقدس کا بوسہ لے لیتا ہے۔ الصلوۃ والسلام علیک یارسول اللہ، ایک تقدس مآب سناٹا چاروں طرف محیط ہوجاتا ہے۔ اے حجر اسود! حضرت عمر فاروقؓ کا یہ فرمانا برحق ہے برحق ہے کہ تو ایک پتھر ہی تو ہے، نہ مجھے نفع پہنچا سکتا ہے نہ نقصان، میں تیرا بوسہ اس لیے لیتا ہوں کہ میرے آقاؐ نے تیر ابوسہ لیا ہے۔ قول عمرؓ برحق ہے لیکن اے حجر اسود ہم غلامان رسول ہاشمی تیرا اس لیے بھی بوسہ لیتے ہیں کہ تو نے ہمارے آقا علیہ السلام کے لب اقدس کو چوما تھا۔ اے حجر اسود! ردائے تکریم حشر تک تیرا مقدر بنے گی، نسبت رسولؐ کا تاج قیامت تک تیرے سر پر جگمگاتا رہے گا، اے سنگ رحمت! تو ہمیشہ سلامت رہے۔
چشم تخیل میں ایک اور منظرجاگ اٹھتا ہے۔
جزیرہ نمائے عرب خشک سالی کی لپیٹ میں ہے۔ قدم قدم پر تشنگی نے ڈیرے جما رکھے ہیں۔ ہر گام پر پیاس کے صحرا خیمہ زن ہیں۔ردائے سبز کو دیکھنے کے لیے آنکھیں ترس گئی ہیں۔ قحط سالی کے آثار دکھائی دے رہے ہیں۔ دن کو سورج آگ برساتا ہے اور رات کو خرمن آرزو سلگنے لگتا ہے، موسم جبر ہریالی کے تصور تک کو نگل چکا ہے۔ سرداران مکہ حضرت عبدالمطلب کی خدمت میں حاضر ہوئے ہیں، فریاد کناں ہیں کہ اے ہمارے سردار! اے خانہ کعبہ کے متولی! اب تو تشنگی ہونٹوں پر اگنے لگی ہے، چرند، پرند اور انسان پانی کی ایک ایک بوند کو ترس رہے ہیں، حضرت عبدالمطلب ننھے حضورؐ کا ہاتھ تھامتے ہیں۔ یتیم عبداللہؐ کو دیوار کعبہ کے ساتھ کھڑا کرکے رب کعبہ سے بارش کی دعا مانگتے ہیں۔ معصومیت چہرہ اقدس کے گرد ہالہ سا بنالیتی ہے، ننھے حضورؐ کے چشمان مقدسہ یقینا آسمان کی طرف اٹھی ہوں گی، آسمان اپنے بخت رسا کی بلندیوں پرجھوم اٹھا ہوگا اور زبان حال سے پکار اٹھا ہوگا یاسیدی! یا مرشدی! اذن ربی سے ابھی حکم سرکارؐ بجا لاتا ہوں۔ یارسول اللہ! تحویل کعبہ کے وقت بار بار میری طرف دیکھنا آپؐ کے رب کو بہت پسند آئے گا اور ہدایتِ آسمانی کی آخری دستاویز میں اس کا ذکر بھی ہوگا آقاؐ میں اس لمحہ جاوداں کا منتظر رہوں گا۔ جب آپؐ میری طرف بار بار دیکھیں گے اور حالت نماز میں ہیں، جبریل اللہ کا پیغام لے کر پہنچ جائیں گے کہ محبوبؐ! رخ انور کعبہ کی طرف پھیر لیجئے آج سے کعبہ کو مسلمانوں کا قبلہ بنایا جارہا ہے۔۔ حضورؐ کے وسیلہ جلیلہ سے مانگی ہوئی دعا کو قبولیت کا شرف عطا ہوتا ہے۔ افق پر بادلوں کا ہجوم اتر آتا ہے۔ ابر کرم جھوم کر آسمانِ طلب کو اپنے حصار میں لے لیتا ہے۔ خوب مینہ برستا ہے۔ زمین جل تھل ہوجاتی ہے۔ چہروں پر جمی ریگِ صحرا پانی کی خنک بوندوں میں تبدیل ہونے لگتی ہے۔ زمین سبزے کی چادر اوڑھ لیتی ہے۔ نبوت کے ہزاروں چاند چہرہ اقدس میں جھلملانے لگتے ہیں۔ روئیدگی حرف سپاس بن جاتی ہے، آقاؐ کرم، آقاؐ کرم...
چشم تصو ر ایک اور منظر دیکھتی ہے۔
حجر اسود کی تنصیب کا مرحلہ درپیش ہے۔ ہر قبیلہ یہ اعزاز حاصل کرنے کا آرزو مند ہے۔ قبائلی عصبیت جاگ اٹھتی ہے یہ فیصلہ نہیں ہوپاتا کہ اس اعزاز کا زیادہ حق دار کون ہے، جنگ کے مہیب سائے لہرا رہے ہیں۔ آخر کار طے پاتا ہے کہ جو شخص حرم اقدس میں سب سے پہلے داخل ہوگا اس کا فیصلہ تمام قبائل منظور کرنے کے پابند ہوں گے۔ دوسرے دن سب سے پہلے حرم اقدس میں تاجدار کائنات حضور رحمت عالم کا چہرہ انور طلوع ہوتا ہے قلب و نظر کا دامن ان گنت روشنیوں سے بھر جاتا ہے۔ قبائل کے چہروں پر امید کی روشنی پھیل جاتی ہے، رسول رحمت پہلے ہی جزیرۃ العرب میں امین اور صادق کے لقب سے یاد کیے جاتے ہیں۔ کردار کی خوشبو پہلے ہی دلوں کو مسخر کرچکی ہے۔ آقائے محتشمؐ، نبی مکرمؐ، رسول معظمؐ ایک چادر زمین پر بچھا دیتے ہیں، حجر اسود کو دستِ اقدس سے اٹھا کر چادر کے درمیان رکھتے ہیں، قبائلی سرداروں کو حکم دیتے ہیں کہ چادر کا ایک ایک کونہ پکڑ لو۔ اور پھر حضورؐ اپنے دست اقدس سے حجر اسود کو دیوار کعبہ میں نصب فرمادیتے ہیں، حجر اسود ممنونیت کے گہرے پانیوں میں ڈوب جاتا ہے، برہنہ تلواریں واپس نیام میں چلی جاتی ہیں، حکمت و دانائی کے پھول چاروں طرف کھل اٹھتے ہیں، امن کی باد بہاری چلنے لگتی ہے، روح کونین جھوم اٹھتی ہے۔
مرحبا سید مکی مدنی العربی
دل و جاں باد فدایت چہ عجب خوش لقبی
تاریخ کا ایک اور ورق الٹ جاتا ہے۔
حضرت حمزہؓ غصے کے عالم میں حرم اقدس میں داخل ہوتے ہیں، ابوجہل نے آج نبی مکرمؐ کی شان میں گستاخی کی ہے۔ حمزہؓ، ابوجہل کے سر پر اپنی کمان دے مارتے ہیں کہ ملعون! تیری یہ جرأت کے میرے بھتیجے کے خلاف زبان دراز کرے۔ سن لے! آج سے میرا دین بھی محمدؐ کا دین ہے۔ لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ، اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں، محمدؐ اللہ کے بندے اور رسول ہیں۔
وقت کا رہوا رآگے بڑھتا ہے
سیدنا عمر فاروقؓ اسلام کے دامن رحمت سے وابستہ ہوچکے ہیں، سر اٹھا کر چلنے کی روایت کو نئی روشنی عطا ہوتی ہے۔ حضورؐ کی غلامی کا پٹکا گلے میں ڈالے مسلمانوں کی ایک جماعت کے ساتھ سیدنا عمرؓ حرم شریف میں برسر عام نماز ادا کرتے ہیں۔ فاروق اعظمؓ کے دبدبے کا یہ عالم ہے کہ کسی کو ان کے رستے کی دیوار بننے کی جرأت نہیں ہوتی۔ روشنی کے سفر کی رکاوٹیں دور ہورہی ہیں، تحریک اسلامی قدم بہ قدم آگے بڑھ رہی ہے، ظلمت شب رختِ سفر باندھنے پر مجبور ہے۔
چشم تصور احتراماً بار بار جھک رہی ہے
صلح حدیبیہ کا موقع ہے حضرت عثمان غنیؓ مسلمانوں کے سفیر بن کر مکہ میں تشریف لاتے ہیں، کفار انہیں پیش کش کرتے ہیں کہ عثمانؓ اب آپ مکے میں آہی گئے ہیں تو خانہ کعبہ کا طواف بھی کرتے جائیں لیکن غیرت عثمانیؓ اپنے آقا علیہ السلام کے بغیر طواف کعبہ کی پیش کش بھی قبول نہیں کرتے، عشق مصطفیٰ کا پرچم کچھ اور بھی سربلند ہوجاتا ہے۔
لوح شعور پر فتح مکہ کا منظر ابھرتا ہے
کفار و مشرکین اپنے انجام کا تصور کرکے کانپ رہے ہیں۔ انتقام کا خوف ان کے رگ و پے میں سرایت کرگیا ہے۔ ان کی آنکھوں میں مسلمانوں کو تپتی ہوئی ریت پر گھسیٹنے کا منظر جاگ اٹھا ہے، پیغمبر اسلام اور ان کے پیروکاروں کو کون کون سی اذیت نہ دی گئی، کفار و مشرکین مکہ سوچ رہے ہیں کہ آج ان سفاک لمحوں کا قرض چکایا جائے گا۔ گن گن کر بدلہ لیا جائے گا۔ آج سر زمین مکہ سرداران قریش کے خون سے سرخ ہوجائے گی لیکن فاتح مکہ کی چادر رحمت فضائوں پر محیط ہے۔ محبت کا زم زم بہہ رہا ہے تاجدار کائناتؐ کی طرف سے اعلان ہورہا ہے کہ آج جو ابوسفیان کے گھر میں پناہ لے لے گا اسے بھی امان دی جائے گی۔ جو شخص اپنے گھر کے اندر سے دروازہ بند کرلے گا اس سے بھی باز پرس نہ کی جائے گی جو شخص حرم اقدس کی حدود میں امان طلب کرے گا اس سے بھی درگذر کیا جائے گا۔ خون کے پیاسوں کے سر پر سائبان حرم کا سایہ ہے۔ بیت اللہ کو تین سو ساٹھ بتوں سے پاک کیا جارہا ہے۔ بلالؓ کعبہ کی چھت پر اذان دے رہے ہیں۔ اللہ اکبر اللہ سب سے بڑا ہے اللہ اکبر، اللہ سب سے بڑا ہے۔
حاجی عمرہ؟ حاجی عمرہ؟
ایک معلم میرے شانے ہلا رہا ہے۔
کیا؟ میں چونک پڑتا ہوں۔
صدیاں لمحۂ موجود کے دروازے پر دستک دے رہی ہیں۔ اپنے ہونے کا احساس لوٹ آتا ہے۔ میں کون ہوں؟ کہاں سے آیا ہوں؟ کس مقصد کی تکمیل کے لیے حاضر ہوا ہوں؟ سب کچھ مجھے یاد آجاتا ہے۔ آنکھیں بدستور طواف کعبہ میں مصروف ہیں۔
حاجی! عمرہ؟ وہ اپنے الفاظ دہراتا ہے۔
ہاں، مجھے عمرہ ادا کرنا ہے، میں اسے اشارے سے جواب دیتا ہوں۔
وہ مجھے بتاتا ہے کہ سو ریال لوں گا۔ میں اسے جواب دیتاہوں۔ نہیں پچاس ریال دوں گا، عمرے کا معاوضہ ہاتھ کے اشارے سے طے پاتا ہے۔ میں معلم سے پوچھتا ہوں میں نے وضو تازہ کرنا ہے، طہارت خانے کہاں ہیں؟ وہ بضد ہے کہ پہلے پچاس ریال دو پھر بتائوں گا، مجھے یہ سودے بازی اچھی نہیں لگتی، میں ایک قدم آگے بڑھ جاتاہوں۔ ایک اردنی بھائی میری مشکل آسان کردیتے ہیں، الٹے پائوں حرم اقدس سے باہر آتا ہوں وضو کرنے کے بعد حرم شریف میں داخل ہوتا ہوں اور تصویر ادب بن جاتا ہوں۔ خانہ کعبہ میرے سامنے ہے، دونوں ہاتھ بہر سلامی اٹھ جاتے ہیں، سرتاپا حرف تشکر بن جاتا ہوں۔ میرے اللہ، کہاں مجھ سا گناہ گار بندہ ناچیز اور کہاں تیرا گھر، آسمان کی طرف پرواز کرجانے والی ساری دعائیں لوٹ آتی ہیں، چہرہ اشکوں سے بھیگ جاتا ہے۔ ایک گنہ گار سیاہ کار عاجز ناچیز بندہ حرف دعا بن کر اپنے رب کے حضور حاضر ہے، لبیک اللہم لبیک۔