لبیک یارسول اللہ ﷺ لبیک- نعت کے تخلیقی زاویے
(جناب محمد متین خالد نے درِ نبی ﷺ پر حاضری کے حوالے سے خوبصورت مضامین کا ایک دل آویز مجموعہ شائع کیا۔ ’’لبیک یا رسول اللہ لبیک‘‘ اس میں شامل کیفیت حضوری سے لبریز ایک ایمان افروز تحریر ہے جو ریاض حسین چودھریؒ کے عشق میں ڈوبے ہوئے قلم سے ٹپکی ہے۔دراصل یہ تحریر جناب ریاض ؒ کے 1985ء میں درِ حبیب ﷺ پر حاضری کے سفر نامۂ حجاز کا ایک اقتباس ہے۔روضۂ رسول ﷺ پر یہ حاضری ریاض کی نعت نگاری کا سرچشمہ بن گئی۔)
’’مسجد نبوی ﷺ کے جوار میں واقع ایک ہوٹل میں، میں نے غسل کیا، نئے کپڑے زیب تن کیے، میری ہمشیرہ نے مجھے خوشبوئوں میں بسادیا اس لیے کہ اس کا بھائی، حضور ﷺ کا ایک ادنیٰ سا شاعر، اپنے آقا ﷺ کی بارگاہ میں حاضری دینے جارہا تھا۔ تمنائوں، آرزوئوں اور خواہشوں کا ایک لشکر اس کے ہمراہ تھا۔ آنسوئوں، ہچکیوں اور سسکیوں کا سیل بے پناہ اس کے ساتھ روانہ ہورہا تھا۔ میرا چھوٹا بھائی اظہر مجھے اشتیاق سے دیکھ رہا تھا۔ آخر اس سے نہ رہا گیا اور کہنے لگا، بھائی جان میں دیکھنا چاہتا ہوں کہ جب آپ اپنے آقا ﷺ کی بارگاہ میں پیش ہوتے ہیں تو آپ پر کیا گزرتی ہے؟ یہ سن کر میں کانپ اٹھا۔ اب میں اسے کیا بتاتا کہ ایک مجرم اپنے آقا ﷺ کی عدالت میں حاضر ہورہا ہے۔ رسوائیوں اور ندامتوں کے سوا اس کے دامن میں کچھ بھی نہیں۔ کیا تم میری رسوائیوں کا تماشا دیکھنا چاہتے ہو؟ نہیں، اظہر نہیں۔ اور اقبالؒ کی یہ رباعی میرے ہونتوں پر مچلنے لگی۔
تو غنی از ہر دو عالم من فقیر
روز محشر عذر ہائے من پذیر
گر حسابم را تو بینی ناگزیر
از نگاہے مصطفی پنہاں بگیر
اے میرے پروردگار! تو غنی ہے اور میں ایک فقیر بے نوا، حشر کے روز میرے عذر کو پذیرائی بخش کر میری خطائوں سے درگزر کرنا، اگر میرا حساب لینا ناگزیر ہوجائے تو مجھے میرے حضور ﷺ کے سامنے رسوا نہ کرنا، میں حضور ﷺ کی شفیق نگاہوں کی تاب نہ لاسکوں گا۔
میں نے جلدی سے اظہر اور زاہد غنی (اپنے بہنوئی) سے ہاتھ ملایا اور تیز تیز قدموں سے سیڑھیوں کے ذریعہ نیچے اترنے لگا۔ الصلوۃ والسلام علیک یارسول اللہ ہر موئے بدن پکار اٹھا۔ ہوٹل اور مسجد نبوی ﷺ کا درمیانی فاصلہ چند قدموں پر محیط تھا لیکن مجھے یوں لگا جیسے یہ فاصلہ صدیوں پر پھیل گیا ہو۔ مجھے یوں لگا جیسے میں صدیوں سے اس سفر پر رواں ہوں، راستے گزر رہے ہیں لیکن منزل قریب نہیں آرہی۔
18 جون 1985ئ، ان گنت تمنائوں، آرزوئوں، حسرتوں اور خواہشوں کی خلعت فاخرہ میں لپٹا ہوا ایک روشن اور منور دن، کلیوں کی نرماہٹ کا تابندہ احساس لیے ہوئے ایک جھلملاتا ہوا دن، میری حیات مستعار کے ناقابل فراموش اور یادگار لمحات کا حامل دن، بیان سے قاصر قلبی کیفیات میں ڈوبا ہوا ایک شگفتہ اور گداز دن، ایک عجیب سا کیف، ایک عجیب سا سرور اور ایک عجیب سا نشہ رگ و پے میں سرایت کررہا تھا۔ حد نظر تک پھیلا ہوا ایک دلنواز اور دل آویز منظر جس پر نئے دن کا مسکراتا ہوا سورج اپنی رو پہلی کرنیں بکھیر رہا تھا، میرے سامنے تھا۔ یہ دلنواز اور دل آویز منظر مجھے، میرے ہونے کا احساس دلا رہا تھا اور میری کائناتِ شعور کو لمسِ اثبات سے ہمکنار کررہا تھا۔ چاروں طرف انوارِ سرمدی کی بارش ہورہی تھی، نور کا باڑا بٹ رہا تھا، عمرہ کی ادائیگی اور حرم کی سرزمین پر سجدۂ بندگی ادا کرنے کے بعد میں مدینۃ النبی کی خاکِ شفا کو اپنی آنکھوں کا سرمہ بنانے کی سعادت حاصل کررہا تھا، ایک دیوانہ اپنے سرہانے غلامی کی زنجیر رکھ کر سونے والا دیوانہ، اپنی آنکھوں میں حیرتوں کے سمندر چھپائے، ہونٹوں پر درود و سلام کے گجرے سجائے اور اپنی دونوں ہتھیلیوں پر عشق مصطفی ﷺ کے چراغ جلائے، دیوانہ وار، شہرِ حضور ﷺ کی معطر، معنبر اور مقدس گلیوں میں آگے بڑھ رہا تھا۔ اس کے ڈگمگاتے ہوئے قدم آہستہ آہستہ مسجد نبوی ﷺ کی جانب اٹھ رہے تھے۔ احساس ندامت قدم قدم پر دامن گیر تھا، ماتھے پر عرقِ انفعال کے چمکتے ہوئے قطرے خطاؤں اور گناہوں کی ایک طویل داستان بیان کررہے تھے، یہ روز، روز عید تھا۔ پلکوں پر اشکوں کا میلہ سا لگا ہوا تھا، پسِ مژگاں رتجگے کا سا سماں تھا۔ یہ عید میرے لیے اربوں، کروڑوں عیدوں سے بڑھ کر ایک ایسی عید تھی جس کے دامن میں روز اول سے میرے سلگتے ہوئے آنسو جذب ہورہے تھے اور میں نے وادیٔ خیال میں پیدا ہونے والی جلال وجمال کی تمام تر رعنائیاں جس عید کے انتظار میں پلکوں کی دہلیز پر نثار کردی تھیں، آنکھوں نے پلکوں پر آنسوئوں کی کناری سی لگا دی تھی۔ حریمِ دیدہ و دل میں چراغاں ہورہا تھا۔ میں کبھی اپنے آپ کو دیکھتا، من کے اندر تاریکیوں کے سوا کچھ نظر نہ آتا اور کبھی نگاہیں شہر پیغمبر ﷺ کے در و دیوار کو چومتیں جہاں اجالے ہی اجالے بکھرے ہوئے تھے، جہاں دھنک کے ساتوں رنگ ادب و احترام کی قندیل تھامے آہستہ آہستہ اتر رہے تھے۔ اندر کا موسم خوش گوار سے خوش گوار تر ہوتا چلا جارہا تھا، کشت آرزو میں باد بہاری چل رہی تھی، شمیمِ خلدِ مدینہ چاروں طرف محوِ خرام تھی۔ قریہ جاں کے کسی دور دراز گوشے سے ایک کمزور سی آواز ابھری، اس کمزور سی آواز نے میرے پورے وجود کو ہلاکر رکھ دیا۔ مجھے میری اوقات یاد دلادی، اندر کی ساری ندامت پیشانی پر امڈ آئی، ریاض! تمہارے نا مۂ اعمال میں رسوائیوں اور بداعمالیوں کے سوا کچھ بھی نہیں، تیری فرد جرم بڑی طویل ہے، تیری دونوں ہتھیلیوں پر اس فرد جرم کے اوراق دھرے ہوئے ہیں۔ ان اوراق پر تیرے ایک ایک جرم کی تفصیل درج ہے۔ ریاض! تیرا سینہ منافق ساعتوں کی آماجگاہ بنا ہوا ہے، تیرے من میں نفرتوںکا لاوا کھول رہا ہے، تیرے ظاہر و باطن میں ہر طرف کثافت اور غلاظت کے ڈھیر لگے ہوئے ہیں، تمہاری یہ جرأت کہ والی کون و مکاں ﷺ کے دربار گہر بار میں چلے آئے ہو، کیا منہ لے کر حضور ﷺ کی بارگاہِ بے کس پناہ میں جا رہے ہو؟ بندۂ گستاخ رک جا! خبردار! ایک قدم بھی آگے نہ بڑھانا، ضمیر کی عدالت سے فیصلہ صادر ہورہا تھا، میں سہم گیا، قدم رک گئے، کم مائیگی اور تر دامنی پائوں کی زنجیر بن گئی، جسم شرمساری کے پسینے میں ڈوب گیا، میں ٹوٹ گیا۔ عالم تحیر میں گم، جوار مسجد نبوی ﷺ میں کھڑا تھا۔ قدم تھے کہ اٹھائے نہ اٹھتے تھے، نظریں تھیں کہ زمین میں گڑی جارہی تھی، اس عالمِ بے بسی میں میرے سرکار ﷺ کی رحمت دستگیری کے لیے ا ٓگے بڑھی، میرے ہاتھ میں میری بیاض نعت تھی۔ میرے رتجگوں کا حاصل، حصار ہجر میں نوائے بردہ، میری دعائے نیم شبی کا ارمغان، میرے آنسوئوں، ہچکیوں اور سسکیوں کا آئینہ، میری عقیدتوں، محبتوں اور خود سپردگیوں کا سرنامہ، دل کو قدرے دلاسہ ہوا۔ عالم وجد میں قریۂ جان و دل میں جود و عطا کی سبز بوندیں اترنے لگیں۔ ایک عجیب سا احساس جاگ اٹھا۔ چلو سوت کی انٹی ہی سہی، شاید میرا نام بھی یوسفؑ کے خریداروں میں شامل ہوجائے۔ روح اور دل پشیمان ہوکر سلگ اٹھے۔
کیا عجب، سگان کوئے مدینہ کی رضا کے جویا رہنے کے صلے میں مجھ گناہ گار کو بھی شرف باریابی سے سرفراز کیا جائے! عجب ثنا خوانِ مصطفی اور غلامانِ رسولِ ہاشمی کی کشف برادری کے بدلے میں دربارِ مصطفی ﷺ کے کسی کونے کھدرے میں مجھے بھی جگہ مل جائے۔ اس احساس غلامی کے بیدار ہوتے ہی میری ذرا سی ڈھارس بندھی، ایک نیا حوصلہ ملا۔ ایک پر کیف بانکپن اور ایک عجیب سرشاری کا شعور عطا ہوا۔ تھوڑا سا اعتماد بحال ہوا تو سنبھل کر کھڑا ہوگیا۔ ذہن میں یہ خیال بجلی کی طرح کوند گیا کہ میں لاکھ برا سہی، لاکھ خطا کار سہی، چہرہ زمانے بھر کی سیاہی سے آلودہ سہی، لیکن پھر بھی اپنے شفیق اور مہربان نبی ﷺ کا امتی تو ہوں۔ دعویٰ لاکھ جھوٹا سہی، ان ﷺ کی محبت کا دم تو بھرتا ہوں، میرے آقا ﷺ پیکرِ عفو و کرم ہیں۔ انؐ کی رحمت کی کوئی حد نہیں، انؐ کے در سے کوئی سوالی خالی ہاتھ نہیں لوٹا۔ سب کا بھرم رکھنے والے رسولِ آخر ﷺ مجھے بھی رحمت کی شال عطا کریں گے، وہ کہاں کسی کا نام و نسب اور کب کسی کاہنر دیکھتے ہیں، مجھ سے بے ہنر کے برہنہ سر پر بھی دست شفقت رکھیں گے، وہ تو کرم ہی کرم ہیں، رحمت ہی رحمت ہیں، عطا ہی عطا ہیں، کیا عجب مجھ ایسے روسیاہ کو بھی اپنی کملی کے اجالوں میں چھپالیں! کیا عجب ایک اچٹتی سی نگاہ مجھ جیسے پر تقصیر پر بھی ڈال لیں اور میرے مقدر کا ستارا چمک اٹھے! کیا عجب...کیا عجب... اور میری آواز رندھ گئی، ہچکی بندھ گئی... یارسول اللہ ﷺ ! ایک دیوانہ اذن باریابی کا منتظر ہے، یا حبیب اللہ ﷺ ! اپنے شاعر کو حاضری کی اجازت مرحمت فرمایئے! یارسول اللہ ﷺ ! اس بھری دنیا میں کوئی اس کا پرسان حال نہیں، کوئی اس کے آنسو پونچھنے والا نہیں، کوئی اس پر نگاہ التفات ڈالنے والا نہیں، کوئی اس کے زخموں پر مرہم رکھنے والا نہیں، آقا حضور ﷺ ! یہ پریشان بھی ہے اور پشیمان بھی، یہ آرزوئوں اور تمنائوں کا ایک طوفان دل میں چھپائے چشمِ کرم کا منتظر ہے، حضور ﷺ چشمانِ مبارک اٹھایئے، آقا ﷺ نگاہ کرم فرمائیے، ضبط کا بندھن بار بار ٹوٹ رہا تھا۔ تمام آرزوئیں اور تمنائیں سیلِ اشک میں خس و خاشاک کی طرح بہنے لگیں، یارسول اللہ اُنظر حالنا، یارسول اللہ اُنظر حالنا۔
دل نے ایک بار پھر ٹوکا، ریاض! ذرا سنبھل کر قدم رکھ، یہ سر زمینِ محبوبِ خدا ہے۔ یہاں کے ذرے ذرے میں عشاقِ مصطفی کے دل دھڑک رہے ہیں۔ یہ خطۂ دلنواز آج بھی میرے حضور ﷺ کے نقش کف پا سے پھوٹنے والی شعاعوں سے جگمگا رہا ہے۔ دیار دل کا ہر منظر، کشورِ روح کا ہر پیکر کیفِ حضوری میں ڈوب گیا۔ ہر موئے بدن حرفِ سپاس بن گیا۔ نظریں آسمان کی طرف اٹھ گئیں اور ہاتھ دعا کے لیے پھیل گئے: اے قادر مطلق، اے بنجر زمینوں کی طرف کالی گھٹائوں کو حکمِ سفر دینے والے رب! میری پلکوں پر جھلملانے والے تشکر کے آنسو قبول فرما۔ یا باری تعالیٰ! تو نے اپنے ایک گناہ گار بندے کو اس کی تمام تر رسوائیوں کے باوجود شہرِ حبیب ﷺ کی زیارت کا شرف بخشا ہے تو اب اپنے محبوب ﷺ کے ایک ادنیٰ سے شاعر کی حاضری کو لمحاتِ حضوری میں بھی بدل دے۔ اے میری سانسوں کے مالک! اے رحیم و کریم رب! میں تیرے محبوب ﷺ کے دربار میں حاضری کے آداب سے واقف نہیں ہوں۔ میرے ذوق اور میرے شوق کو حدِ ادب میں رکھ، میرے اضطراب کو حرفِ تحمل عطاکر، دل نے آہستہ سے سرگوشی کی، یہاں سانس بھی آہستہ لے، یہ شہر نبی ﷺ ہے، دیکھ! حضور ﷺ انہی فضائوں میں سانس لیا کرتے تھے۔ انؐ کی مقدس سانسوں کی خوشبو آج بھی ان فضائوں میں رچی بسی ہے۔
چشم تصور انگلی پکڑ کر مجھے میرے بچپن میں لے جاتی ہے، سردیوں کے دن ہیں، نماز عشاء کے بعد ہم سب بچے اپنے دادا جان کے بستر میں گھس جاتے ہیں۔ ایک ساتھ تقاضا ہوتا ہے کہ لالہ جی! کوئی کہانی سنائیں، وہ چند لمحے توقف فرماتے ہیں اور مدینے کی گلیوں کا ذکر چھیڑ دیتے ہیں، حضور ﷺ کی کہانی سناتے ہیں، وہ ہمیں اپنے ساتھ طائف کے بازاروں میں لے جاتے ہیں، پہاڑوں کا فرشتہ حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کرتا ہے یارسول اللہ!اگر حکم ہو تو اس بستی کو ان دو پہاڑوں کے درمیان پیس دوں لیکن حضور ﷺ جو سرتاپا رحمت ہیں، پہاڑوں کے فرشتے کو ایسا کرنے سے روک دیتے ہیں۔ حضور ﷺ کے مقدس ٹخنوں سے خون بہہ رہا ہے، آپ ﷺ ایک باغ میں تشریف لاتے ہیں۔ دادا جان ہمیں حضور ﷺ کے بچپن کے واقعات سنایا کرتے، دائی حلیمہ کی قسمت پر رشک کیا کرتے، دائی حلیمہ جب حضور ﷺ کو لے کر چلی تو اس کی مریل سی سواری سب تیز رفتار سواریوں سے آگے نکل گئی۔ جب وہ حضور ﷺ کو اپنی گود میں لیے اپنی کٹیا میں داخل ہوئی تو کٹیامیں ہر طرف روشنی پھیل گئی۔ حضور ﷺ پالنے میں ہوتے تو چاند حضور ﷺ کی انگلی کے اشارے پر کبھی دائیں طرف جھک جاتا اور کبھی بائیں جانب۔ وہ ہمیں بتاتے کہ خانہ کعبہ میں تین سو ساٹھ بت رکھے ہوئے تھے، عرب اپنے ہاتھ سے تراشے ہوئے بتوں کی پوجا کرتے تھے۔ کبھی دادا جان ہمیں بتاتے کہ حضور ﷺ مہمان عرش بن کر آسمانوں کی سیر کو گئے تھے۔ حضرت بلالؓ کا ذکر کرتے کہ اسلام قبول کرنے پر انہیں ریت پر گھسیٹا جاتا۔ غار حرا کا ذکر آتا، حضرت عمرؓ کے اسلام لانے کا واقعہ سناتے، دادا جان کی آواز بھراجاتی! آنکھیں چھلک پڑتیں، ہم بچے حیران ہوتے کہ یہ کہانی سناتے سناتے داداجان کو کیا ہوجاتا ہے۔ وہ کہانی سناتے سناتے چند لمحوں کے لیے رک کیوں جاتے ہیں۔ حضور ﷺ کا نام زبان پر آتے ہی ان کی آنکھیں کیوں چھلک پڑتی ہیں اور یہ حضور ﷺ کون ہیں کہ ان کے نام پر لہو کی گردش تیز ہوجاتی ہے۔ یہ مدینہ کس بستی کا نام ہے، یہاں کے ذرے ذرے کو آنکھوں کا سرمہ بنانے کی تمنا کیوں دلوں کو بے تاب رکھتی ہے۔ جب شعور ذرا پختہ ہوا اور معلوم ہوا کہ ہمارا تو سب کچھ ہمارے حضور ﷺ ہی ہیں۔ حضور ﷺ اللہ کے آخری نبی ہیں، اللہ کے سب سے برگزیدہ پیغمبر ہیں، یہ کائنات ارض و سماوات آپ ﷺ کے قدموں کا تصدق ہے، حضور ﷺ ہمارے آقا ﷺ ہیں، ہمارے سردار ہیں، ہمارے ماویٰ و ملجا ہیں اور کائنات کی سب سے محترم شخصیت ہیں اور اس وقت تک ایمان مکمل نہیں ہوتا جب تک حضور ﷺ ہمیں ہماری جان، مال، اولاد غرضیکہ ہر شے سے عزیز تر نہ ہوجائیں تو میری آنکھیں بھی حضور ﷺ کا نام سنتے ہی بھیگنے لگتیں۔ حضور ﷺ کی محبت رگ و پے میں اترتی محسوس ہوتی، اعلیٰ حضرت احمد رضا خاں بریلوی کا سلام سنتا تو حالت غیر ہوجاتی۔ آنکھیں بند کرلیتا، درود شریف پڑھتا اور چشم تصور میں گنبد خضرا کی چھائوں میں پہنچ جاتا، بارگاہ نبوی ﷺ میں پہنچ کر سلام عرض کرتا، اپنی گزارشات بارگاہ نبوی ﷺ میں پیش کرتا اور درود پڑھتے پڑھتے پھر اپنی دنیا میں واپس پہنچ جاتا، جب کسی کتاب یا رسالے میں گنبد خضرا کی تصویر دیکھتا تو دونوں ہاتھ اٹھا کر سلام کرتا، حضور ﷺ کے بارے میں کہیں کوئی تحریر پڑھتا یا اخبار میں حضور ﷺ کا اسم گرامی دیکھتا تو بے اختیار حضور ﷺ کے اسم گرامی کو چوم لیتا، اس اخبار یا رسالے کو کبھی آنکھوں سے اورکبھی سینے سے لگاتا، سینے میں ایک ٹھنڈک سی محسوس ہوتی، لطف و راحت کا ایک عجیب سا موسم دل و نظر پر محیط ہوجاتا، واقعہ ہجرت پڑھ کر عجیب سی حالت ہوجاتی، مکہ مکرمہ سے حضور ﷺ کے سفر ہجرت کا آغاز، غار ثور سے قبا تک کا سفر، اہل مدینہ کا والہانہ استقبال، بنو نجار کی بچیوں کا خیر مقدمی گیت گانا، اکثر مجھے تڑپادیتا۔ جب میں نے پہلی بار اس مکان کی تصویر دیکھی جہاں یثرب کی بچیوں نے دف بجا کر حضور ﷺ کو خوش آمدید کہا تھا تو میں دیر تک وہ تصویر آنکھوں سے لگا کر روتا رہا تھا۔ میں اکثر سوچتا، کاش میں بھی یثرب کی ان بچیوں میں شامل ہوتا۔ حضور ﷺ کی راہوں میں اپنی آنکھیں بچھاتا۔ حضور ﷺ کی ناقہ کی مہار تھام کر عرض کرتا، حضور ﷺ میرے گھر چلیے ہم سب گھر والے آپ کی خدمت کیا کریں گے۔ حضور ﷺ میرے قریب آکر پوچھتے کیا تم مجھے چاہتے ہو تو میں بے ساختہ پکار اٹھتا ’’دل و جان سے یارسول اللہ ﷺ !‘‘ اور پھر دیوانہ وار اپنے آقا ﷺ کے قدموں سے لپٹ جاتا۔
خیالات کی وادیٔ دلکشا میں پھول کھل رہے تھے۔ تصورات کی دنیا سے باہر آیا تو سر پر سورج پوری آب و تاب کے ساتھ چمک رہا تھا۔ میں فضائے مدینہ میں سانس لے رہا تھا۔ ہوائے مدینہ سے ہم کلامی کا شرف حاصل ہورہا تھا۔ میں نے اضطراری کیفیت میں نیلے آسمان کی طرف دیکھا۔ کیا میرے آقا ﷺ بھی اسی آسمان کو دیکھا کرتے تھے۔ جسم پر ایک کپکپی سی طاری ہوگئی،ان پہاڑوں نے حضور ﷺ کو دیکھا ہوگا۔ ان ہوائوں نے انؐ کے گیسوئے تابدار کے بوسے لیے ہوں گے۔ اس خاک نے قدوم مصطفی ﷺ کو چومنے کا اعزاز حاصل کیا ہوگا۔ میں دیر تک کھلے آسمان کی طرف دیکھتا رہا۔ میں نے جدھر دیکھا مجھے میرے حضور ﷺ ہی نظر آئے۔ آسمان کی وسعتیں انوار محمدی ﷺ سے بھر گئیں۔ میرے زندہ نبی کا وجود ایک زندہ و پائندہ حقیقت بن کر ہر طرف جلوہ افروز تھا۔ میری آنکھوں کے سامنے دھند کا پردہ کچھ اور بھی گہرا ہوگیا۔ آنسوئوں کے رقص میں تیزی آگئی، مجھے کچھ خبر نہیں تھی کہ میرے اردگرد کیا ہورہا ہے۔ روضۂ اقدس کی زیارت سے مشرف ہونے والے عشاق کس حال میں ہیں، ان کے دلوں پر کیا گزر رہی ہے۔ میں ہمت کرکے آگے بڑھا۔ یوں لگا جیسے بادِ بہاری سڑک کے دونوں طرف مؤدب کھڑی ہے۔ تمنائوں کے ان گنت آنچل قدم قدم پر بچھے ہوئے ہیں۔ مجھے یوں محسوس ہوا جیسے کائنات کا ذرہ ذرہ میرے ساتھ چل رہا ہے۔ ہر چیز روضۂ اقدس کی جانب رواں دواں ہے۔ مجھے یوں لگا جیسے وقت کی رفتار تھم گئی ہو، ہوائوں نے دم سادھ لیا ہو، چراغ بدست خوشبو کے قدم رک گئے ہوں اور پھر اوج ثریا نے میری آنکھوں کو چوم لیا۔ نگاہ اٹھائی تو ہر اشک آئینہ خانہ بن گیا، پلکیں بھیگ گئیں۔ سامنے گنبد خضرا اپنی جملہ تابانیوں کے ساتھ جلوہ افروز تھا۔ میں ایک لمحے کے لیے ڈگمگا گیا، پوری کائنات کا مرکزِ نگاہ جس کے تصورِ دلپذیر سے کشورِ جاں میں بادِ بہاری چلتی ہے، جس کے تصدق میں موسموں کو شاداب ساعتوں کی خلعت عطا ہوتی ہے، رعنائی خیال جس کے دامن کی اترن ہے، جو ہر زبان کی ہر لغت میں امن، سلامتی، سکون اور عافیت کا سب سے بلیغ استعارہ ہے، میں اس شہر انتخاب میں تھا اور اپنے تصورات میں گم صم گنبد خضرا کی طرف دیکھ رہا تھا۔ نگاہیں بہر سلامی اوپر اٹھیں اور اٹھی ہی رہیں، کسے آنکھ جھپکنے کا یارا تھا۔ پھر احترام سے جھک گئیں اور جھکتی ہی چلی گئیں۔ دل کی ہر دھڑکن آنکھوں میں سمٹ آئی تھی، دیار ہجر میں عمر عزیز کی کتنی راتیں اور کتنے دن گنبد خضرا کی ٹھنڈی چھائوں میں کھڑا تھا، لہو کی ایک ایک بوند ناچ اٹھی، پورا عالم رقص میں آگیا، فضائیں جھوم اٹھیں، ساعتیں درود پڑھنے لگیں، فضائیں الصلوۃ والسلام علیک یارسول اللہ کے سرمدی الفاظ سے معمور ہوگئیں۔ میں نے اپنے منتشر خیالات کو سمیٹا۔ دل نے ایک بار پھر ٹوکا، ریاض! سنبھل کر چل، ہوش کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑ، اپنے بخت رسا کی بلائیں لے۔ چند لمحے بعد تو حضور ﷺ کی عدالت عظمیٰ میں پیش ہونے والا ہے، اے مجرم! اپنی صفائی میں کیا کہو گے؟ دیکھو! سر جھکا کر اپنے جرائم کا اعتراف کرلینا، وہ دلوں کے پوشیدہ مناظر بھی دیکھ لیتے ہیں۔ تمام آرزوئوں کو دامنِ دل میں سمیٹ لے اور پھر چند ثانئے بعد باب جبریل کے سامنے کھڑا تھا۔ دہلیز مصطفی ﷺ کو نظروں نے بوسہ دیا، نگاہوں سے خود بخود سجدے ٹپک پڑے۔ جی چاہا سرکار ﷺ کی چوکھٹ سے دیوانہ وار لپٹ جائوں، عشاق مصطفی ﷺ کے قدموں کو چوم لوں، کچھ سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ اپنے جذبات کا اظہار کس طرح کروں، رقص کروں کہ جھوم جائوں، گمان گزرتا کہیں یہ خواب تو نہیں۔ کیا میں حالت بیداری میں ہوں؟ پھر میں اپنے آنسوئوں کے ان گجروں کو تلاش کرنے لگا جو میںنے عمر بھر شب کے پچھلے پہر سپردِ باد صبا، اس التماس کے ساتھ کئے تھے کہ اے مدینے کی طرف جاتی ہوئی ہوائو! میرے ان آنسوئوں کو دہلیز مصطفی ﷺ پر رکھ کر عرض کرنا کہ آقا ﷺ آپ کا شاعر بے حد اداس ہے۔ حضور ﷺ چاروں طرف سے اسے غموں نے گھیر رکھا ہے، حضور ﷺ بلاوے کا منتظر ہے۔ مجھے کچھ خبر نہیں کہ میں نے کب اور کیسے دہلیز مصطفی ﷺ کو عبور کیا۔ ہوش آیا تو حضور ﷺ کے قدمینِ مبارک میں کھڑا تھا۔ سامنے سبز جالیاں تھیں، چشم پُرنم نے جھک کر حضور ﷺ کے قدموں کو بوسہ دیا۔ یارسول اللہ! ہماری جنت تو آپ ﷺ کے قدموں میں ہے۔ یاد مصطفی ﷺ میں پہروں مچلنے والا دل زور زور سے دھڑک رہا تھا۔ آنسوئوں، ہچکیوں اور سسکیوں کا ایک طوفان امڈ آیا۔ میرے وجدان نے ہمیشہ حضور ﷺ کے قدموں پر سجدے لٹانے کی آرزو کی ہے۔ سرکار ﷺ کے قدموں میں گر کر مرجانے کی تمنا کی ہے۔ آج میں اپنے آقا ﷺ کے قدموں میں کھڑا تھا۔ لبوں پر درود و سلام کے زمزمے مچل رہے تھے۔ عشاق مصطفی بارگاہ حضور ﷺ میں ہدیہ سلام پیش کرنے کے بعد سامنے سے آرہے تھے، میں بڑے ادب اور احترام کے ساتھ آہستہ آہستہ آگے بڑھ رہا تھا۔ دل کی رفتار یقینا قدموں سے تیز تھی اور پھر وہ لمحہ بھی آگیا جسے حاصل زندگی بھی کہوں تو کم، یوں لگا جیسے انوار کی چادر سی میرے سامنے تان دی گئی ہو، شاداب ساعتوں کے موسم نے مجھے اپنی بانہوں میں لے لیا ہو، آہستہ آہستہ نظریں اٹھائیں۔ سامنے رنگ و نور کا ایک سمندر موجزن تھا۔ چند لمحوں کے لیے نجانے کہاں کھوگیا، روضۂ اطہر کی سنہری جالیاں سامنے تھیں، وہ جالیاں جنہیں میں نے چشمِ تصور میں بارہا بوسہ دینے کی سعادت حاصل کی تھی۔ سینے سے ایک طوفان اٹھا، میں دیوانہ وار پکار اٹھا: ’’لبیک یارسول اللہ لبیک!‘‘، میں بے ساختہ پکار رہا تھا۔ حضور ﷺ آپ ﷺ کا ایک ادنیٰ سا شاعر، آپ ﷺ کے گھرانے کا نوکر، آپ ﷺ کے غلاموں کا غلام حاضر ہے، آقا آپ ﷺ کا مجرم سر جھکائے آپ ﷺ کی عدالت میں کھڑا ہے۔ میں نے چشم تصور میں دیکھا، حضور ﷺ فاتحانہ انداز میں مکہ میں داخل ہورہے ہیں۔ سر، بارگاہ خداوندی میں جھکا ہوا ہے۔ کفارو مشرکین بھی مجرموں کی طرح سر جھکائے کھڑے ہیں لیکن حضور ﷺ کی طرف سے اعلان ہورہا ہے کہ آج جو شخص ابو سفیان کے گھر میں آجائے گا، اسے بھی پناہ دے دی جائے گی جو اپنے گھر کو اندر سے بند کرلے گا، وہ بھی امان پائے گا۔ یہ سوچ کر مجھے حوصلہ ہوا۔ ایک مجرم کے اوسان بحال ہوئے۔ حضور ﷺ اپنے شاعر کا سلام قبول کیجئے: الصلوۃ والسلام علیک یارسول اللہ! ساری عمر ارادے باندھتا رہا کہ حضور کی بارگاہ بے کس پناہ میں پہنچ کر اپنی ساری تمنائیں طشت دیدہ و دل میں سجا کر پیش کردوں گا۔ یہ عرض کروں گا، وہ عرض کروں گا۔ اپنے ٹوٹے ہوئے وطن کی داستان کہوں گا۔ عرض کروں گا کہ آقا ﷺ آپ کے غلاموں کے وطن کا ایک بازو ٹوٹ گیا ہے۔ حضور ﷺ میرا مشرقی پاکستان سازشوں کے بھنور میں ڈوب گیا ہے۔ آقا ﷺ غلاموں کا آشیانہ شاخِ نازک پر لرز رہا ہے۔ حضور ﷺ شرمسار ہوں کہ اب میرے وطن سے آپ ﷺ کو ٹھنڈی ہوا نہیں آتی، ہم آپ ﷺ کی تعلیمات کو بھول چکے ہیں، تارک قرآن ہوکر در در کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں، ہم آپ ﷺ کی تعلیمات کو بھول چکے ہیں، ہم نے ہر اخلاقی قدر کا جنازہ اپنے کندھوں پر اٹھا رکھا ہے۔ اپنی ثقافتی اقدار کو عملی زندگی میں نافذ کرنے کی بجائے انہیں ہم نے عجائب گھروں کے شفاف شو کیسوں میں سجا رکھا ہے۔ حضور ﷺ ہم اپنی تاریخ ہی نہیں، اپنے جغرافیے کے بھی قاتل ہیں۔ صنم خانے ہمارے سوچوں کے نگر میں آباد ہیں، کشورِ دیدہ و دل میں دھول اڑ رہی ہے۔ ہر زاویہ نگاہ تشکیک کی گرد میں لپٹا ہوا ہے۔ ہم نے اپنے دین میں اپنی جھوٹی انا کی گمراہیوں کی مسند بچھا رکھی ہے۔ ہم نے تاج ختم نبوت پر ڈاکہ ڈالنے والے غاصبوں کو اپنے دامن میں چھپا رکھا ہے۔ ہم وہ بدبخت ہیںجو فلسطین، بوسنیا اور کشمیر کی بیٹی کے سر پر تحفظ کی ردا نہ دے سکے۔ ان کی عصمتیں سر بازار لٹتی رہیں لیکن ہماری غیرت ایمانی پر مسلسل برف گرتی رہی۔ آقا ﷺ ٹوٹ جائیں ہمارے دونوں ہاتھ، ٹوٹ جائیں ہمارے دونوں ہاتھ، حضور ﷺ ہم آپ کے مجرم ہیں، حضور ﷺ ہم آپ ﷺ کے مجرم ہیں۔ سوچا تھا حضور ﷺ کی بارگاہ اقدس میں وطن کی ہوائوں کا سلام پیش کرنے کے بعد گھر کے ایک ایک فرد کا نام لے کر سلام عرض کروں گا کہ یارسول اللہ میرے گھرانے کا ایک ایک بچہ دونوں ہاتھ اٹھا کر سلام کہہ رہا تھا۔ حضور ﷺ آپ کی کنیزیں گلاب کی سرخ پتیاں لے کر دست بستہ کھڑی تھیں۔ آقا ﷺ ، غلام زادے سر تاپا حرفِ سپاس بن کر سلام پیش کررہے تھے، حضور ﷺ میرے گھر کے در و دیوار بھی سلام کہتے تھے۔ حضور ﷺ میرا قلم، میری تنہائیوں کا ساتھی، حضور ﷺ ہم دونوں مل کر آپ کی محبت کے چراغ جلایا کرتے تھے، حضور ﷺ اس ٹوٹے ہوئے قلم کو بھی اپنے ساتھ لے آیا ہوں، ورق ورق پر سجدے لٹانے والا قلم، حضور ﷺ سلام عرض کرتا ہے لیکن تمام تمنائیں اور آرزوئیں سیلِ اشک میں بہہ گئیں۔ ممکن ہے عالم بے خودی میں زبان حال سے یہ سب گزارشات حضور ﷺ کے گوش گزار بھی کردی ہوں لیکن محسوس یہی ہورہا تھا جیسے زبان پر تالے پڑ گئے ہیں، لفظ لڑ کھڑا رہے ہیں، جذبات کی بیساکھیاں ٹوٹ رہی ہیں، جملے آنسوئوں میں تحلیل ہورہے ہیں۔ آواز حلق میں اٹک کر رہ گئی اور روتے روتے ہچکی بند گئی، دزدیدہ نگاہوں سے دیکھا، غلامان رسول ہاشمی کے جذبوں کا ایک سمندر چاروں طرف موجزن تھا۔ ہر کوئی اپنے دکھ سمیٹے اپنے آقا ﷺ کی بارگاہ میں گزارشات پیش کررہا تھا۔ میرے آگے پیچھے دائیں بائیں عشاق مصطفی دنیا و مافیہا سے بے نیاز حضور ﷺ کے دربار گہر بار میں درودوں کے گجرے اور سلاموں کی ڈالیاں پیش کررہے تھے۔ ایک عالم کیف میں ڈوبا ہوا تھا۔ دل نے سرزنش کی کہ سیدنا ابوبکر صدیقؓ اور سیدنا عمر فاروقؓ کی بارگاہ میں سلام پیش کئے بغیر آگے بڑھ آئے ہو۔ چلو اور جاں نثاران مصطفی سے اپنی کوتاہی کی معافی مانگو۔ میں شرمندگی کی چادر میں منہ چھپائے بارگاہ صدیقیت اور بارگاہ فاروقیت میں حاضر ہوا۔ عرض کی میرے حضور ﷺ کے محترم ساتھیو! حضور ﷺ کا ایک ادنیٰ سا شاعر سلام کے لیے حاضر ہوا ہے اور بصد ادب التماس گزار ہے کہ اس مجرم کی انگلی پکڑ کر اسے حضور ﷺ کی خدمت اقدس میں لے چلیں! میں ایک مجرم کی طرح ستونوں کے پیچھے چھپ رہا تھا، میری روسیاہیاں میری آنکھوں میں سمٹ آئی تھیں۔ یقین نہیں آرہا تھا کہ سچ مچ مواجہہ شریف میں کھڑا ہوں اور حضور ﷺ مجھے دیکھ رہے ہیں، کہیں اندر سے آواز آئی، اے دیدۂ شوق میں سلگنے والے آنسوئو! اے مصحفِ شعور پر تحریر ہوتی سسکیو! اور اے لوح عقیدت پر رقم ہوتی ہوئی ہچکیو! احتراماً جھک جائو اور خاکِ انور کو اپنی آنکھوں کا سرمہ بنالو، زائرین کے قدموں کی دھول اپنے چہرے پر مل لو۔ آواز آئی، ریاض! اپنی اوقات جانتے ہو، یہ تو حضور ﷺ کا کرم ہے کہ تجھ جیسے کمینے کو بھی حاضری کا پروانہ جاری ہوگیا ہے، معلوم ہے کس کے دربار اقدس میں کھڑے ہو، ارے نادان! یہ تیرے آقا ﷺ کا دربار ہے۔ سامنے روضہ اطہر کی سنہری جالیاں ہیں۔ یہ وہی سنہری جالیاں ہیں جنہیں دیکھ کر تیرا وجدان رقص میں آجایا کرتا تھا۔ یہ وہی سنہری جالیاں ہیںجنہیں تم ہر شب چشمِ تصور میں بوسہ دیا کرتے تھے۔ نظریں اٹھا اور اپنی سلگتی ہوئی آنکھوں سے اِن معطر جالیوں کو چوم لے۔ یہ بارگاہِ والیٔ کون و مکاں ﷺ ہے، یہ محبوبِ رب العالمین ﷺ کا آستانہ ہے، یہ دربارِ شہنشاہ انس و جاں ﷺ ہے، یہ در یتیم آمنہؓ کے لال ﷺ کی آرام گاہ ہے، یہاں ذرا سا بھی اضطراب سوء ادب میں شمار ہوگا۔ چند لمحوں کے لیے میں بھول چکا تھا کہ میں کون ہوں، کہاں سے آیا ہوں اور کس عظیم پیغمبر کی بارگاہ میں کھڑا ہوں۔ وہ اضطراب اور بیقراری جسے ہجر کی ساعتوں میں حرز جاں بنایا کرتا تھا، وہ تڑپ جس میں مچل مچل کر دوری میں بھی حضوری کی لذت سے ہمکنار ہوا کرتا تھا، ختم ہوچکی تھی۔ ایک عجیب سا سکون روح پر محیط تھا، جیسے بھوک اور پیاس کی شدت سے نڈھال بچہ روتے روتے ماں کی آغوش میں میٹھی نیند سو جاتا ہے۔ کچھ اس قسم کی کیفیت سے روح اور بدن سرشار تھے۔ اندر سے وہی آواز دوبارہ ابھری، ریاضِ خوش نوا! اپنے بخت رسا پر ناز کر، یہ وہی مواجہہ شریف ہے جو تیری سوچوں کا مرکز و محور رہا ہے، یہ اسی سالار نسل آدم ﷺ کا دربار ہے ہم نسل در نسل جس کی شفقتوں کے مقروض چلے آرہے ہیں، جس کی ثنا ازل سے تیرے مقدر میں لکھ دی گئی تھی۔ یہ اسی نبی محتشم ﷺ کا آستانہ ہے جس کی یاد شب کے پچھلے پہر تیری خلوتوں میں میلہ سا لگایا کرتی تھی، یہ اس نبی آخرالزمان ﷺ کی دہلیز ہے جس پر سجدہ ریز ہونے کے لیے تیرا قلم مچلتا رہتا تھا۔ تیری سانسیں مضطرب رہتی تھیں، اے میرے مقدر وجد میں آ، اے میری روح ذرا جھوم جا، مجھے یوں محسوس ہوا جیسے میرے حضور ﷺ کی چادرِ رحمت نے مجھے اپنے دامن کی خنک چھائوں میں سمیٹ لیا ہو، قلب و نظر میں اٹھنے والا طوفان تھم چکا تھا۔ جھیل کی مضطرب موجیں سکون آشنا ہوچکی تھیں۔ میں نے اپنی بیاضِ نعت کو الٹنا پلٹنا شروع کردیا۔ ’’حضور حاضر ہے ایک مجرم‘‘ یہ نعتیہ نظم لبوں پر مچل اٹھی، ایک ایک مصرعے میں دل کی ہزار ہزار دھڑکنیں سمٹتی جارہی تھیں۔ الفاظ کانپ رہے تھے، ہونٹ کپکپارہے تھے۔ ہاتھوں پر رعشہ طاری تھا اور میرا سارا وجوداحساسِ ممنونیت کی چادر میں لپٹا ہوا تھا۔ یوں لگا جیسے صدیاں بیت گئی ہوں، اللہ اکبر، اللہ اکبر، مؤذن کی آواز گونجی، میں چونک پڑا، جیسے کوئی برسوں کی نیند کے بعد بیدار ہوتا ہے۔ الصلوٰۃ والسلام علیک یارسول اللہ! چشم پرنم نے جھک کر حروف سپاس کو بوسہ دیا۔ حضور ﷺ اس کی کوتاہیوں سے درگزر فرمایئے۔ روح اور جسم دونوں آنسوئوں سے وضو کرکے نماز عشق ادا کررہے تھے، مؤذن کی آواز گونج رہی تھی‘‘۔
اشھد ان محمد رسول اللہ
اشھد ان محمد رسول اللہ