شعریات (POETICS) میں عشقِ نبوی ﷺ کی روشنی!- ریاض حسین چودھریؒ کی نعت نگاری
دنیائے ادب پرہر عہد میں دورجحانات کا غلبہ رہتا ہے۔ روایت کی پاسداری کے ساتھ اساتذہ کی تقلید و تتبع میں تخلیق کیے جانے والا تقلیدی ادب اور فکر و فن کے شعوری ادراک کی اساس پرنمود پانے والا رجحان ساز اجتہادی ادب۔ اجتہادی مزاج کے فن کار ہمیشہ اپنی راہ الگ نکالنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ادب کے تالاب میں کنکر پھینک کر لہریں پیدا کرنے والے لکھاری ہمیشہ کم ہوتے ہیں لیکن ایسے ہی لکھاریوں کی کاوشوں سے ادب میں تازگی کے آثار پیدا ہوتے ہیں اور کسی صنفِ ادب میں جدید رنگ ظاہر ہونے لگتے ہیں۔ اردوشاعری کی دنیا میں بھی مقلد شعراء کی تعداد ان گنت ہے اور مجتہد شعرا انگلیوں پر گنے جانے والے ہیں۔ غالب، حالی اور اقبال شاعری کے مزاج پر اثرا انداز ہوئے کیوں کہ وہ مجتہد شعراء تھے۔ بقیہ شعرا روایت گزیدگی کا شکار تھے۔ وہ بعد کے شعرا کو زبان و بیان کے گُر توسکھاگئے، لیکن تخلیقی شعور کو کوئی ایسی روشنی نہ دے سکے کہ زبان و بیان اور فکر و خیال یا شعری اصناف میں تجربات کے نقوش بنا سکیں۔ غالب نے اپنا ’’انداز بیاں اور‘‘ ہونے پر فخرکیا تو اس کی تحسین بہت بعد میں ہوسکی۔ حالی نے مقدمہء شعرو شاعری میں جن اجتہادی نظریات کی روشنی میں تخلیقِ سخن کی بات کی اس کی تفہیم بھی فوری طور سے نہ ہوسکی تھی۔ لیکن بعد کے زمانے نے انھیں اردوادب کا پہلا نقاد تسلیم کرلیا۔ اقبال نے روایت سے انحراف کرکے قدیم موزوں اصنافِ شعر میں نئے فکری میلانات کی جوت جگائی اور نہ صرف پچھلی نسلوں کو پیچھے چھوڑ دیا بلکہ آئندگاں کے لیے بھی ایک چنوتی (challenge) کا سماں پیدا کردیا۔
ریاضؔ حسین چودھری بھی ایک نعت گو شاعر تھے۔ ان کے سامنے بھی روایتی شاعری کے دفتر تھے۔ ان کے عہد میں بھی مقلد شعراء کی کھیپ موجود تھی۔ لیکن انھوں نے ایک مجتہد شاعر ہونے کا ثبوت دیا۔ شاعری میں مسلسل نکھار پیدا کرنے کے لیے تجربات کیے اور ہمہ دم مدحتِ رسول ﷺ کرکے خود کو امر کرلیا۔ مجھے عبدالعزیز دباغ صاحب کے اس تبصرے سے کلی طور پر اتفاق ہے :
’’ان (ریاضؔ حسین چودھری) کی نعت کے مضامین متنوع اور اَن گِنت ہیں اور زندگی کے جملہ معاملات و مسائل کو محیط ہیں۔ یہ تنوع صرف مضامین کے حوالے سے ہی نہیں بلکہ وسائلِ اظہار کے حوالے سے بھی۔ انہوں نے تشبیہات، استعارات، تراکیب، رعایات اور نعتیہ لغت کے معانی کو بھی وسعتیں عطا کی ہیں اور نئی تراکیب اورنئے استعارات تخلیق کئے اور شعری روایت میں گراں بہا اضافے کئے ہیں جس سے زیبائشِ اظہار کے حوالے سے اردو کے نعتیہ ادب میں لغوی حسن کو فروغ ملا ہے۔ ریاض نے زندگی کے جدید حوالوں کے مطالب و مفاہیم روائتی نعت کے دامن میں ڈال کر ایک نئی دنیائے معانی اور ایک نیا جہانِ حرف و صوت تخلیق کیا جو صرف ریاض کا جہانِ نعت ہے۔‘‘ (ص : 65)
فی زمانہ نفسی نفسی کا دوردورہ ہے۔ ہر شخص اپنی ذات کے بارے میں سوچتا اور اپنی نمائش کا خوگر نظر آتا ہے۔ ادبی دنیا میں بیشتر لوگ اپنی نگارشات پیش کرنے اور ان کی تشہیر کے لیے بے تکان بر سرِ پیکار دکھائی دیتے ہیں۔ کسی دوسرے کا خیال انھیں آتا ہی نہیں۔ لیکن عبدالعزیزدباغ صاحب نے ریاضؔ حسین چودھری کے حینِ حیات بھی ان کی نگارشات کی اشاعت میں بھرپور حصہ لیا اور ان کی وفات کے بعد بھی ان کے کلام کے بقیہ سرمائے کو محفوظ کرنے کے لیے دامے، درمے، قدمے اور سخنے اپنی کوششیں جاری رکھیں۔
ریاضؔ حسین چودھری نے تاکیداً اپنے بیٹے سے کہا تھا :
’’مدثر بیٹے! میری نعت کی کتابوں کے حوالے سے آپ نے زندگی بھر عبد العزیز صاحب کے علاوہ دنیا کے کسی شخص پر بھروسہ نہیں کرنا۔‘‘
چودھری مرحوم کی وصیت کا لفظ لفظ اس بات کی گواہی دے رہا ہے کہ عبدالعزیز دباغ جیسا مخلص دنیائے ادب میں کوئی اور نہیں تھا۔ زیرِ نظر کتاب کی اشاعت بھی عبدالعزیز دباغ صاحب کے خلوص کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ اس میں وہ تنقیدی آراء شامل ہیں جو انھوں نے ریاض حسین چودھری کے فکر و فن کے حوالے سے سپردِ قِرطاس کی تھیں۔
ریاضؔ کے شعورِ نعت کی نشوونما کے عنوان سے لکھی تحریر میں ریاض مرحوم کے شعری و فکری خدوخال کا عکس ہے اور ان کے شخصی احوال کابیان ہے۔ اس بیان سے شاعری اور بالخصوص نعتیہ شاعری سے ریاض حسین چودھری کا شغف اور عشقِ رسول ﷺ کا رنگ ظاہر ہورہا ہے۔
کتاب کے مشمولات کا اجمالی خاکہ مصنف نے خود اس طرح بنا دیا ہے :
’’اس کتابچے میں احقر کی کاوشوں میں مذکور ریاض کی نعت کے فکرو فن کے چند نمایاں پہلوؤں کو معنوی ربط کے مطابق ترتیب دے کر ایک مسلسل تحریر کی شکل دینے کی کوشش کی گئی ہے۔ ریاض کے اسلوب، تازہ کاری کے فنی طریقوں، معنوی تہوں کی آبیاری اور فروغ معنویت کے لئے شعریت کی مزاج شناسی کے حوالے سے ان کے کلام کی شگفتگی، ندرت اور تازگی میں تغزل، نظم کی ہیئتوں، علامتوں، استعاروں اور نئی تراکیب کے کردار جیسے مضامین کو معنوی ربط کے ساتھ بیان کیا گیا ہے‘‘۔
نعتیہ ادب سے والہانہ عقیدت اور اس کی اشاعت کے لیے جذبہء محرکہ ’’عشقِ نبوی ﷺ‘‘ ہے۔ شاعر مرحوم کے عشقِ نبوی ﷺ کے آثار، اس کے شعری سرمائے سے روشن و تاباں ہیں۔ عبدالعزیز دباغ کی تحریروں میں عشقِ رسول ﷺ نے بالواسطہ اظہار کی صورت پائی ہے۔ اسی لیے، ان کے تنقیدی شعور کے انعکاس سے وجود میں آنے والی سطر سطر کو تابندگی مل گئی ہے۔
فی الحال میری علالت، تفصیلی اظہار میں مانع ہے۔ اس لیے ان چند سطور ہی پر اکتفا کرنا پڑرہاہے۔ میں عبدالعزیز دباغ صاحب کو اس کتاب کی اشاعت پر مبارکباد پیش کرتے ہوئے ان کی تنقیدی دانش کی مزید تابندگی کے لیے دعا گو ہوں۔
ڈاکٹر عزیزؔ اَحسن
ڈائریکٹر نعت ریسرچ سینٹر کراچی
بدھ : 7 صفر 1443ھ
15 ستمبر2021ء