عرضِ مصنف- ریاض حسین چودھریؒ کی نعت نگاری
ریاض حسین چودھریؒ کے ساتھ میرا قلبی تعلق نعتِ رسولِ محتشم ﷺ کے حوالے سے تھا۔ وہ ضعیفی اور بیماری کی وجہ سے چاہتے تھے کہ انہوں نے جتنا نعتیہ کلام تخلیق کیا ہے چھپ جائے۔ وسائل کی عدم دستیابی کے باوجود میں ان کے نعتیہ مجموعوں کی اشاعت میں عملاً دل چسپی لینے لگا۔ نعتیہ مجموعے کے تعارف یا پیش لفظ کے لئیجہاں جہاں چودھری صاحب کہہ سکتے تھے تحریریں ملتی رہیں اور احبابِ نقدو نظر نے دل کھول کر لکھا۔ ان میں اکابر ادبا کے نام ہیں۔ ڈاکٹر اسحٰق قریشی صاحب، ڈاکٹر ریاض مجید صاحب، ڈاکٹر عزیز احسن صاحب، ڈاکٹر شہزاد احمد صاحب اور کئی صاحب مقام اہلِ قلم جن کی تحریروں سے کسی کتاب کا مقام متعین ہو تا ہے۔ دبستانِ نو چھپنے تک جہانِ نعت کے اِن دانشوروں کی تحریریں ملتی رہیں۔ تاہم بعض کتب کے لئے مہینہ بھر میں کوئی تحریر ملنا مشکل تھی تو ریاض مجھے لکھنے کا کہنے لگے۔ نقدونظر کے حوالے سے مجھ جیسا مفلس کیا کر سکتا تھا مگر ریاض کی محبت اور ان کی نعت کے حسن کلام پر جو لکھ سکا، لکھ دیا۔ نقدِ نعت کے کسی زاویے کی پرکھ میں ان تحریروں کا کیا مول ہے، کبھی سوچا ہی نہ تھا۔ نہ ہی انہیں کتابی شکل میں شائع کرنے کا کبھی خیال ہی گزرا جب کہ ریاض کی رحلت کے بعد ان کی دس غیر مطبوعہ کتابوں کے مسودات دیکھے توایسی تحریروں کا سوچ کر مدھم سا ہو گیا۔ اس بات کا بہر حال اطمینان بہت تھا کہ ریاض کے سارے کلام کو riaznaat.com ویب سائٹ پر اپ لوڈ کر چکا تھا۔
عَزِیْزٌ عَلَیْہِ مَا عَنِتُّم ﷺ کی نگاہِ عطا کرم گستر ہوئی تو میری کسی تحریر نے جناب سیدصبیح الدین رحمانی صاحب کے دل میں اپنی جگہ بنا لی۔ وہ بہت محبت کرنے والے ہیں، ’’حَرِیْصٌعَلَیْکُم‘‘، کشادہ دل اور فیاض۔ رابطہ ہوا۔ میں نے اپنے اکیلے پن کا تذکرہ کیا تو فرمانے لگے : ’’میں ہوں نا آپ کے ساتھ‘‘، آپ کام کریں اور ان شا ء اللہ ریاض کے شعور نعت کی ترویج ہوتی رہے گی۔ یہ رسول کریم ﷺ کی نعت کا شعور ہے جسے ہم نے عام کرنا ہے۔ آپ کے درد کو سمجھتا ہوں۔ یہ بہت بڑا ذریعہ نجات ہے۔
فروغِ نعت کے لئے بے قرار رہنے والے صبیح رحمانی صاحب کی رہنمائی میںابھی حال ہی میں ریاض کے تین نعتیہ مجموعے ’تاجِ مدینہ، کتابِ التجا اور اکائی ‘ نعت ریسرچ سنٹر کراچی کے اہتمام سے ’’ریاضِ حمد و نعت ‘‘کے نام سے ایک ہی جلد میں شائع ہوئے ہیں۔ صبیح رحمانی زندہ فکر والے ہیں۔ فرمانے لگے کہ چودھری صاحب ایک خوبصورت نثر نگار بھی تھے اور فن نعت پر گہری نظر رکھتے تھے۔ کیوں نہ اُن پر لکھی گئی نثر اور خود ان کی اپنی لکھی ہوئی تحریریں مرتب کر کے شائع کی جائیں جب کہ کام تو ہوا پڑا ہے۔ اس طرح نعت کے نقد و نظر کے فروغ میں ان کی محنت ٹھکانے لگ جائے گی۔
چودھری صاحب کی اپنی نگارشات اور اکابر ادباء کی تحریروں کی اشاعت پر کام ہو رہا ہے جب کہ اس کتابچے میں احقر کی کاوشوں میں مذکور ریاض کی نعت کے فکرو فن کے چند نمایاں پہلوؤں کو معنوی ربط کے مطابق ترتیب دے کر ایک مسلسل تحریر کی شکل دینے کی کوشش کی گئی ہے۔ ریاض کے اسلوب، تازہ کاری کے فنی طریقوں، معنوی تہوں کی آبیاری اور فروغ معنویت کے لئے شعریت کی مزاج شناسی کے حوالے سے ان کے کلام کی شگفتگی، ندرت اور تازگی میں تغزل، نظم کی ہیئتوں، علامتوں، استعاروں اور نئی تراکیب کے کردار جیسے مضامین کو معنوی ربط کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔ ریاض کے شعور نعت کی نشوونما کے ابتدائی معاملات، تمنائے حضوری کی پیہم کیفیت، کاروباری زندگی کے ساتھ ساتھ نعت نگاری اور ادبی سرگرمیوں میں جوش و خروش، تمنائے حضوری کی تخلیق اور بعد کے فن پاروں میں ان کے اسلوب اور معنویت کے ارتقا کی فنی بنیادیں، غزل، قلم اور روشنی کے محیط استعارے، تراکیب، علامتی اظہار اورفروغِ معنویت کے ذرائع، ادب رسول کی کرم باریاں اور حمد رب ذوالجلال کی لامحدودیت، حتیٰ کہ ریاض اگلی صدی کی نعت نگاری کر گئے۔
ریاض کی نعت کے ان متنوع پہلوؤں پر یہ مسلسل جنبشِ قلم نذرِ قارئین ہے۔ امید کرتا ہوں کہ لکھنے کے قابل نہ سہی، ریاض پر شاید کوئی ڈھنگ کی بات بھی قلم سے ٹپک گئی ہو جو نقد نعت کے حوالے سے مناسب سمجھ لی جائے۔ میں کوئی ادیب تو ہوں نہیں، نہ ہی نقدو نظر کی بڑی سوجھ بوجھ رکھنے والاہوں۔ البتہ احباب کی حوصلہ افزائی میرے لئے تھوڑی بھی بہت ہے، بہت ممنون ہوں، سیکھنے کا متمنی رہتا ہوں۔
جناب سید صبیح رحمانی نے ریاض کے شعورِ نعت پر مبنی لٹریچرکے حوالے سے احقر سے کام لینے کا فیصلہ فرمایا، یہ میرے لئے کسی اعزاز سے کم نہیں۔ ان کا تہ دل سے شکر گذار ہوں۔ ڈاکٹر عزیز احسن صاحب مصروفت کے باوجود خوب رہنمائی فرماتے ہیں اور اپنا قیمتی وقت دینے میں گریز نہیں کرتے۔ رب کریم انہیں بے پایاں اجر سے نوازے۔ میں شعور نعت کے فروغ کے حوالے سے نعت ریسرچ سنٹر کراچی کے وسیع کام اور جناب صبیح رحمانی اور ڈاکٹر عزیز احسن کی وسعت قلب و نظر پر رب کریم سے ان کے لئے صحت، سلامتی اور خیر و برکت کی دعا کرتا ہوں۔
شیخ عبد العزیز دباغ
اُٹھے گا نعت لکھتے ہوئے روزِ حشر بھی
حاصل مرے قلم کو دعائے رسولؐ ہے