مرے ہونٹوں پہ تو اسمِ امیرِ مرسلاںؐ لکھ دے- ریاض حمد و نعت
مرے ہونٹوں پہ تو اسمِ امیرِ مرسلاںؐ لکھ دے
مضافاتِ قلم میں پھول، جگنو، تتلیاں لکھ دے
جوارِ قریۂ دل میں ہو مدحت کی فراوانی
ثنا کے سرخ پھولوں کو زرِ نطق و بیاں لکھ دے
میں لکھتا ہوں ترے محبوبؐ کی توصیف کے کالم
الٰہی! میرے ہاتھوں پر بہارِ جاوداں لکھ دے
میں مبہم سا تشخص لے کے کیا جیتا رہوں، یارب
فصیلِ شہر پیغمبرؐ پہ میرا بھی نشاں لکھ دے
ہو خورشیدِ ثنا سے، آج بھی، خلدِ سخن روشن
بیاضِ نعت کی ابجد، سرِ لوحِ گماں لکھ دے
حصارِ خوف میں رہتے ہیں صدیوں سے زمیں والے
تُو اِن کے مصحفِ احوال پر امن و اماں لکھ دے
ترے محبوبؐ کی امت کھڑی ہے کربلاؤں میں
فراتِ عشق و مستی میں خنک آبِ رواں لکھ دے
غبارِ مصلحت میں چھپ گیا ہے عدل کا چہرہ
بتانِ عصرِ نو کے رو برو حرفِ اذاں لکھ دے
مجھے تو اپنی سانسوں کی چکانا ہے ابھی قیمت
مرے بچوں کی قسمت میں کشادہ سا مکاں لکھ دے
لکھی تھی نعت پہلی جب، شمار اُس دن سے کر اپنا
جو پہلی عمر ہے اُس کو تو عمرِ رائیگاں لکھ دے
جہاں نقشِ قدم میرے پیمبرؐ کے فروزاں ہیں
وہاں کے ذرّے ذرّے کو ہجومِ کہکشاں لکھ دے
اٹھا کر کلکِ مدحت تُو سرِ اوراقِ تابندہ
خیالِ شہرِ نکہت کو، صبا، عنبرفشاں لکھ دے
کتابِ آرزو کے سرورق پر اے خدا میرے
ثنائے مرسلِ آخرؐ کو تو دونوں جہاں لکھ دے
اٹھیں جب جانبِ طیبہ قدم اہلِ محبت کے
مجھے اُنؐ قافلے والوں کی گردِ کارواں لکھ دے
ہوائے شہرِ طیبہ سے وہاں بھی ہمکلامی ہو
مقدّر میں، سرِ محشر، نبیؐ کا سائباں لکھ دے
لگیں انبار سیم و زر کے زرداروں کی بستی میں
جبینِ شوق میں یارب! انہیؐ کا آستاں لکھ دے
کرم سرکارؐ کا بڑھ کر گلے تجھ کو لگا لے گا
در و دیوارِ طیبہ پر تو اپنی داستاں لکھ دے
یہاں کونین کے والیؐ کی رحمت کا بسیرا ہو
مری امی کے مرقد پر ہوائے مہرباں لکھ دے
لغت کے لفظ سارے عجز کا اظہار کرتے ہیں
ریاضؔ اشکِ ندامت کو تو اپنا ترجماں لکھ دے
قطعہ
روشن تری لحد میں چراغِ حرم رہے
اشکوں سے تر ہمیشہ ہی تیرا قلم رہے
تو نے قدم قدم پہ سجائے ادب کے پھول
تجھ پر سدا حضورؐ کی نگہِ کرم رہے
(آقا حضورؐ کی بارگاہ میں فیض کی التماس)
میرے امی اور ابو کو کبھی بلوائیے
مستقل مہمان طیبہ میں انہیں ٹھہرائیے
آپؐ کی رحمت چھپا لے اپنے دامن میں انہیں
التجا ہے رات دن اُن پر کرم فرمائیے
*