ہم رعایا آپؐ کی ہیں، یانبیؐ، چشمِ کرم- ریاض حمد و نعت
ہم رعایا آپؐ کی ہیں، یانبیؐ، چشمِ کرم
یانبیؐ، یاسیدیؐ، یامرشدیؐ، چشمِ کرم
یا محمد مصطفیٰؐ، ابرِ کرم، ابرِ کرم
خیمہ زن ہے ہر طرف تشنہ لبی، چشمِ کرم
کب نہ تھی توصیف کی رم جھم مرے گھر میں مقیم
کب مری عمرِ رواں بے کار تھی، چشمِ کرم
دیکھ کر ریگِ عرب پر آپؐ کے نقشِ قدم
آنکھ سورج کی بھی ہے خیرہ ہوئی، چشمِ کرم
اپنے دامانِ شفاعت میں چھپا لیں، یانبیؐ
آپؐ کا نادان سا ہوں اُمّتی، چشمِ کرم
کب خدائے زر سے دامن کو چھڑا پاؤں گا مَیں
رو پڑی ہے آج میری بے بسی، چشمِ کرم
اجتماعی خود کُشی پر مطمئن ہیں رہنما
یانبیؐ، یہ ہے قیامت کی گھڑی، چشمِ کرم
بھوک کا مارا ہوا انسان جائے بھی کدھر
ہر قدم پر کر رہا ہے، خود کشی، چشمِ کرم
راستے قعرِ مذلّت کی طرف جاتے ہیں سب
ہر قدم پر ہے نئی دیوار سی، چشمِ کرم
تختیوں پر حرفِ مبہم کے سوا کچھ بھی نہیں
ہے پسِ زنداں شعور و آگہی، چشمِ کرم
لوگ پھر جھوٹے خداؤں کی عملداری میں ہیں
رزق ہے جھوٹی اَنا کا آدمی، چشمِ کرم
حق و باطل کی ہے آویزش ابھی جاری، حضورؐ
ہے منافق ساعتوں سے دوستی، چشمِ کرم
ارضِ کشمیر و فلسطیں پر کرم کی بارشیں
شمعِ آزادی پسِ زنداں جلی، چشمِ کرم
خوف سے سہمے ہوئے بچے کہاں جائیں، حضورؐ
لٹ گئی ہے ان کے چہروں کی خوشی، چشمِ کرم
خشک سالی میرے کھلیانوں میں اُگتی ہے، حضورؐ
پھر لگے بستی میں ساون کی جھڑی، چشمِ کرم
خالقِ ارض و سما کے فضل کے طالب ہیں ہم
اور ہے درکار آقاؐ، آپؐ کی چشمِ کرم
غیرتِ تیمور برسے تازیانوں کی طرح
اُمّتِ عاصی کو عزمِ آہنی، چشمِ کرم
گونج اٹھے پھر ضمیروں میں صداقت کی اذاں
توڑ دیں کشکول اپنا آج بھی، چشمِ کرم
خون پینے کی روایت آج بھی زندہ ہوئی
آبروئے صبر بھی چھینی گئی، چشمِ کرم
تلخیاں ہی تلخیاں ہیں دامنِ افلاس میں
کب سے ہے، آقاؐ، مقفّل زندگی، چشمِ کرم
ابرِ رحمت جھوم کر اٹھے مدینے سے، حضورؐ
آپؐ کی رحمت کے سب ہیں ملتجی، چشمِ کرم
ہر طرف پژمردگی، مردہ دلی، آقا حضورؐ
شاخِ روز و شب بھی ہے کانٹوں بھری، چشمِ کرم
آپؐ کی چوکھٹ سے ہے لپٹی ہوئی آقا حضورؐ
دم بخود، سہمی ہوئی، میری صدی، چشمِ کرم
ہم سمجھ پائے نہیں مفہوم اقراء کا، حضورؐ
چھن گئی علم و ہنر کی روشنی، چشمِ کرم
مانگتا ہے آسماں جرمِ ضعیفی کا حساب
عظمتِ رفتہ کہانی بن گئی، چشمِ کرم
اب اندھیروں کے سوا کچھ بھی نظر آتا نہیں
تھا کبھی اپنا مقدّر برتری، چشمِ کرم
میرے دریاؤں کا پانی پی رہے ہیں راہزن
مرغزاروں میں بھی ہے بے رونقی، چشمِ کرم
اپنے آباء کی مَیں قبروں کا مجاور بھی نہیں
سر برہنہ ہے مری شرمندگی، چشمِ کرم
فاتحہ خوانی کروں میں اُمّتِ مرحوم کی
مجھ کو حصے میں ملی نوحہ گری، چشمِ کرم
ہوش مندی سے امیرِ کارواں آگے بڑھے
حوصلہ ہاریں نہ میرے لشکری، چشمِ کرم
اپنی تہذیب و تمدن سے بہت ہی دور ہیں
ہر کسی کا پیرہن ہے کاغذی، چشمِ کرم
پھر مری محرومیوں نے سر ابھارا ہے، حضورؐ
پھر مَیں دیکھوں آپؐ کی روشن گلی، چشمِ کرم
گم شدہ اوراق ہیں تاریخ کے ڈھونڈوں کہاں
مَیں ریاضِؔ بے نوا اور بزدلی، چشمِ کرم
فردیات
دستِ عطا سے پائیں گے پروانۂ نجات
مَحْشر ظہورِ عظمتِ سرکارؐ کا ہے دن
*
طیبہ میں داخلے ہی سے پہلے ریاضؔ جی
ہم نے چراغ پھینک دیئے تھے پسِ غبار
*
ایک اک لمحہ حضوری میں بسر ہو گا ریاضؔ
روزنِ دیوارِ طیبہ میں سجا آیا ہوں دل
*