ازل سے ہوں مدینے کے گلی کوچوں کا شیدائی- ریاض حمد و نعت

ازل سے ہوں مدینے کے گلی کوچوں کا شیدائی
جوارِ گنبدِ خضرا کی بارش کا تمنائی

ہوائیں خود چراغِ آرزو آکر جلاتی ہیں
ستاروں سے بھری رہتی ہے میری شامِ تنہائی

اجالا ہی اجالا ہے قلم کے لالہ زاروں میں
مرے حصّے میں کب آئی ہے شہرِ شب کی رسوائی

بنایا ہے مجھے اپنے نبیؐ کا نعت گو تُو نے
مرے حرفِ ثنا کو بھی عطا کرنا پذیرائی

ضمیرِ حرفِ مدحت میں چراغاں ہی چراغاں ہے
ہے قرطاس و قلم کی آبرو لفظوں کی رعنائی

مرے اعزازِ نسبت میں ہزاروں رنگ شامل ہیں
سگانِ کوئے طیبہ سے بھی گہری ہے شناسائی

حضورؐ، اولادِ آدم کو ملے موسم کی شادابی
سکونِ قلب کی بجتی رہے آنگن میں شہنائی

مجھے اتنے ملے لعل و جواہر، بھر گیا دامن
درِ اقدس پہ کب ہے التجا شاعر نے دہرائی

ملا ہے انخلا کا حکم امت کو جزیروں سے
غلاموں کے مقدّر میں ہے پسپائی ہی پسپائی

حصارِ آہنی بننے کا جاری حکم نامہ ہو
حضورؐ، آہن گری کب سے مرا پیشہ ہے آبائی

اندھیرے ہی اندھیرے ہیں مسلط چشمِ حیرت پر
مقفّل ہوچکی ہے بند غاروں میں توانائی

سوائے آپؐ کے آقاؐ کوئی مرہم نہیں رکھتا
سوائے آپؐ کے کرتا نہیں کوئی مسیحائی

مَیں اپنی خوش نصیبی کی بلائیں لیتا رہتا ہوں
مری انگلی پکڑ کر روشنی طیبہ میں لے آئی

تری رحمت نے میرے آبخوروں میں رکھی شنبم
گھٹا تیرے کرم کی پھول برساتے ہوئے آئی

مہذب ساعتیں ان کی جبلت میں رہیں زندہ
مرے بچّوں میں ہو تقسیم دانائی ہی دانائی

کبھی ہو زر پرستی کے جنوں سے زندگی غافل
مسائل کے سمندر میں ہے گہرائی ہی گہرائی

خدا رکھے مرے ہر آئنے کو خاکِ طیبہ میں
کہ دھندلانے لگی ہے آج چشمِ تر کی بینائی

سر محشر ہر اک امت شفاعت کی طلب لے کر
اُنہیؐ کے سائبانِ عافیت میں ہے چلی آئی

مبارکباد دو مجھ کو کہ مَیں نے نعت لکھی ہے
قلم کو آج بھی پوشاک خوشبو نے ہے پہنائی

مَیں کن ہاتھوں سے اپنا منہ چھپائوں گا سرِ محفل
مرے جرمِ ضعیفی کا زمانہ ہے تماشائی

حروفِ التجا مَیں نے صبا کے ہاتھ پر رکھے
ریاضِؔ خوشنوا ہے آپؐ کی گلیوں کا سودائی

فردیات

ہم بھی گذرے ہیں مدینے کی گذر گہ سے ریاضؔ
ہر طرف دیکھی ہے ہم نے روشنی ہی روشنی

*

چومے ہیں اس نے نقشِ کفِ پا حضورؐ کے
خوشبو ملی ہے رقص کے عالم میں آج بھی

*

خدا کا شکر ہے جس نے مری جبلّت میں
ثنائے مرسلِ آخرؐ کی روشنی رکھی

*