صلِّ علیٰ کا لب پہ ہے گلشن کھلا ہوا- ریاض حمد و نعت

صلِّ علیٰ کا لب پہ ہے گلشن کھلا ہوا
میلہ ہے خوشبوؤں کا ازل سے لگا ہوا

تاریخ اضطراب کے عالم میں ہے، حضورؐ
اقوامِ ارضِ شب کا بدن ہے جدا ہوا

طوفانِ تند و تیز میں صدیوں سے، یانبیؐ
کاغذ کی کشتیوں کا ہے بیڑا گھرا ہوا

آقاؐ، ہوائے عدل مقفّل ہے اِن دنوں
محشر دیارِ لوح و قلم میں بپا ہوا

امت کھڑی ہے زر کی تپش کے حصار میں
اس کا برہنہ سر بھی ہے کب سے جھکا ہوا

اس عصرِ نو کو عجز کی چادر عطا کریں
ہر آئنہ ہے گردِ انا میں اٹا ہوا

دھڑکن ہر ایک اُنؐ سے ہے منسوب اس لئے
خاکِ درِ رسولؐ سے ہے دل بنا ہوا

خوشبو طواف میرے قلم کا کیا کرے
ہونٹوں پہ اِس کے اسمِ نبیؐ ہے سجا ہوا

چہرہ تو اس کا جانبِ شہرِ نبیؐ کرو
دیکھو! چراغِ شب ہے ابھی سے بجھا ہوا

ہر ہر قدم پہ، زائرِ طیبہ، زرِ ادب
تجھ کو ملے گا راہگذر میں پڑا ہوا

آنکھوں نے بھی درود ہے بھیجا تمام شب
صحنِ جوارِ دیدہ و دل ہے دُھلا ہوا

اک کیفِ سرمدی کا تواتر سے ہے نزول
نعتِ نبیؐ کا ہو گا دریچہ کھلا ہوا

ہم لوگ دشتِ خوف میں تنہا ہیں اس طرح
صحرا میں جیسے دھوپ کا صحرا بچھا ہوا

دستِ صبا پہ چاند کی کرنوں نے رکھ دیا
اشکِ رواں سے میرا قصیدہ لکھا ہوا

ڈرتا ہوں میں، حضورؐ، نہ جائے بھٹک کہیں
آنسو ہے ایک چشمِ غزل میں رکا ہوا

مانگا بھی تھا ریاضؔ وسیلہ حضورؐ کا
دستِ دعا ہے آج بھی تیرا اٹھا ہوا

*

آنکھ بھر آتی ہے ذکرِ مصطفیٰؐ کرتے ہوئے
آنکھ کی شبنم فشانی کب زرِ متروک ہے

*