آقائے مکرمؐ کے مدینے کا مکیں ہوں- ریاض حمد و نعت
آقائے مکرمؐ کے مدینے کا مکیں ہوں
مَیں دولتِ توصیفِ پیمبرؐ کا امیں ہوں
آقا جیؐ، کرم اور کرم اور کرم ہو
مَیں حرفِ ادب، حرفِ ثنا، حرفِ یقیں ہوں
یہ منصبِ اعلیٰ ہے ملا پہلے ہی دن سے
مَیں خاتمِ مدحت کا ازل ہی سے نگیں ہوں
مَیں اُنؐ کی رضا جوئی کا طالب ہوں ازل سے
تنقید نگاروں میں مَیں شامل ہی نہیں ہوں
اے شہرِ غزل آ ترے دامن کو سجادوں،
بوصیریؒ کے مَیں زندہ قصیدے کی زمیں ہوں
دائیں مری جانب مرے آقاؐ کا ہے روضہ
مَیں جنتِ ارضی کے بہت آج قریں ہوں
عیدی مَیں، بصد شوق، طلب کرنے ہوں آیا
اِس عید کے دن تک مرے آقاؐ مَیں یہیں ہوں
جھولی مری سرکارؐ نے پھولوں سے بھری ہے
مَیں خندہ نظر، خندہ سخن، خندہ جبیں ہوں
یہ شانِ خداوندی بھی دیکھی ہے کسی نے
دامن ہے تہی میرا مگر تخت نشیں ہوں
آنکھیں مری آقا جیؐ کے قدموں میں پڑی ہیں
ظاہر میں اگرچہ میں ریاضؔ اور کہیں ہوں
(27 رمضان المبارک مطابق 9 اکتوبر 2007ء مسجدِ نبوی
کے پہلے دالان میں گنبد خضرا کی ٹھنڈی
چھائوں میں افطاری سے قبل کہی گئی)
*