شعاعِ عفو ہمیشہ سے ہے چراغِ راہ- ریاض حمد و نعت
شعاعِ عفو ہمیشہ سے ہے چراغِ راہ
حضورؐ، باندھ کے لایا ہوں گٹھڑیوں میں گناہ
یہ ہر طرف جو اجالا دکھائی دیتا ہے
پڑی ہے روضۂ اقدس پہ روشنی کی نگاہ
بنیں گے لشکری نسرین و نسترن، میرے
اسیرِ اسمِ محمدؐ ہے خوشبوؤں کی سپاہ
چلو بہار کے موسم سے چل کے پوچھتے ہیں
نقوشِ پائے نبیؐ کب بنے تھے سجدہ گاہ؟
غبارِ خوفِ مسلسل ہے آئنوں پہ محیط
حضورؐ! مجھ کو ملے شہرِ عافیت میں پناہ
فشارِ امتِ مظلوم پر نظر، آقاؐ
ہر ایک سمت سے آنے لگی فغان و آہ
خدا کا خوف نہیں ہے خدا کے بندوں میں
ہوائے جبر سے آقاؐ میں کر رہا ہوں نباہ
ہجومِ تشنہ لبی کی مٹی ہے تشنہ لبی
فرشتے بابِ عطا پر پکار اٹھّے ’’راہ‘‘
ریاضؔ، کل بھی نکل پائے گا نہ سورج کیا
افق پہ خیمے لگانے لگا ہے ابرِ سیاہ
*
جوارِ گنبدِ خضرا میں رہنا ہے قیامت تک
خلافِ عقل ہے کب فیصلہ میرے تخیّل کا
*