یوں ابر کہیں اور برستا نہیں دیکھا- ریاض حمد و نعت
یوں ابر کہیں اور برستا نہیں دیکھا
کیا دیکھا کسی نے جو مدینہ نہیں دیکھا
مَیں بن کے قلم رقص میں رہتا ہوں ورق پر
کیا جشنِ ولادت کا مہینہ نہیں دیکھا
کونین پہ جس پیکرِ نوری کا ہے سایہ
سورج نے بھی اُس نور کا سایہ نہیں دیکھا
جو مسجدِ نبوی کی ادب گہ میں ہے جاری
دنیا نے کسی بردے کا سجدہ نہیں دیکھا
ہر موڑ پہ رحمت کے فرشتوں کے تھے جھرمٹ
طیبہ کے گلی کوچوں کا نقشہ نہیں دیکھا
ہر طاق میں اشکوں کے دیے رکھتی تھیں آنکھیں
تو نے شبِ رخصت مرا رونا نہیں دیکھا
آقا جیؐ کے قاصد کے سوا ہم نے ابھی تک
انوار سے لکھا ہوا نامہ نہیں دیکھا
ضو خود ہو رقم لوحِ دل و جاں پہ سرِ شب
مدحت کے سوا ایسا وظیفہ نہیں دیکھا
کس موسمِ شاداب کی رہتی ہے تمنا
کیا، چشمِ فلک؟ گنبدِ خضرا نہیں دیکھا
تم مفلس و نادار نہ کہتے مجھے صاحب!
شاید ابھی منگتے کا یہ کاسہ نہیں دیکھا
ممنون ہے انگشتِ پیمبرؐ کا ابھی تک
لوگوں نے کبھی چاند کا چہرہ نہیں دیکھا
جنت کی فضائیں بڑی دلکش ہیں یقینا
تو نے مری سرکارؐ کا روضہ نہیں دیکھا
اُس چہرۂ انور کی تلاوت تو کیا کر
قرآن میں کیا آپؐ کا چہرہ نہیں دیکھا
تصویرِ ادب بن کے مواجھے میں کھڑی ہے
خوشبو کا کبھی تو نے سراپا نہیں دیکھا
اسلوبِ ثنا سب سے جدا پایا ہے میں نے
اربابِ سخن نے مرا لہجہ نہیں دیکھا
امشب بھی ریاضؔ آپؐ نے اربابِ ثنا کا
کیا اوجِ ثریا پہ نصیبہ نہیں دیکھا
*