جھونکا ہوں خنک عجزِ مسلسل کی ہوا کا- ریاض حمد و نعت

جھونکا ہوں خنک عجزِ مسلسل کی ہوا کا
منہ دیکھے بھلا کیسے کوئی جھوٹی اَنا کا

ہاتھوں کے مصلّے پہ مری کلکِ ثنا ہے
تصویرِ ادب لفظ ہے ہر بابِ ثنا کا

ہر نعت کے ہر شعر کے سر پر ہے عمامہ
ہم نے تو تصور ہی بدل ڈالا ہما کا

ہے اوجِ ثریا پہ مقدّر کا ستارا
طیبہ کی طرف جاتی ہوئی بادِ صبا کا

مکے میں اِدھر کفر کے بادل تھے گھنیرے
منظر بڑا دلکش تھا اُدھر غارِ حرا کا

طیبہ کے گلستاں کے تصور کی مہک سے
بھر جاتا ہے دامانِ طلب گھر کی فضا کا

سجدے میں رہی میری جبیں صحنِ حرم میں
آیا ہے جواب اب کے برس میری صدا کا

ہو بارِ دگر مجھ پہ کرم، سیّدِ عالمؐ
اشکوں سے ہے تر چہرہ مرے حرفِ دعا کا

ہو میری وراثت میں فقط نعت کی دولت
آقا جیؐ، صلہ مانگنے آیا ہوں وفا کا

مَیں شہرِ حوادث کے اندھیروں میں کھڑا ہوں
دامن مرے ہاتھوں میں رہے صبر و رضا کا

مشکیزے بھرے رہتے ہیں سب جن و بشر کے
کیا ذکر کروں آپؐ کے دریائے عطا کا

سرکارِ دو عالمؐ کی ولادت کی خوشی میں
کیا خوب رہا جشن ترے ارض و سما کا

شاہوں کے بھی ہاتھوں میں حکومت کی سند ہے
کشکول ہے لبریز عطاؤں سے گدا کا

کہتے ہیں مجھے لوگ مدینے کا مسافر
نغمہ ہوں، ریاضؔ، ایک میں خود بانگِ درا کا

قطعہ

کرم حضورؐ کا اتنا ہے مجھ نکمے پر
سحاب آتے ہی رہتے ہیں میرے گلشن میں
چراغ جلتے ہی رہتے ہیں آرزوؤں کے
بہار آئی ہی رہتی ہے میرے آنگن میں

*