ہر شب مجھے ہو جاتا ہے دیدارِ مدینہ- ریاض حمد و نعت
ہر شب مجھے ہو جاتا ہے دیدارِ مدینہ
ہر روز میں پڑھ لیتا ہوں اخبارِ مدینہ
بوسیدہ کتابوں کے ورق الٹو گے کب تک
تابندہ ہیں، رخشندہ ہیں افکارِ مدینہ
یارب! ہوں عطا اور تسلسل سے عطا ہوں
تہذیبِ پراگندہ کو اقدارِ مدینہ
سب مردہ ضمیروں کو جلا ڈالوں تو اچھا
دیتے ہیں سبق عشق کا احرارِ مدینہ
کیسے میں دکھا پاؤں گا طیبہ کے مناظر
ممکن ہی نہیں لفظوں میں اظہارِ مدینہ
لے جاتے ہیں اُس شہرِ خنک میں مجھے ہر شب
اوراق پہ پھیلے ہوئے آثارِ مدینہ
تصویرِ ادب بن کے مواجھے میں کھڑے ہیں
قسمت کے سکندر ہیں طلب گارِ مدینہ
تخلیقِ خدا، جن کا بدل کوئی نہیں ہے
بے مثل بشر ہیں مرے سرکارِ مدینہ
سورج سوا نیزے پہ بڑے شوق سے چمکے
محشر میں مجھے کافی ہے دستارِ مدینہ
شاید نہیں معلوم رقیبانِ سحر کو
لجپال ہمارے بھی ہیں دلدارِ مدینہ
ہاں ہاں میں ہوں دیوانہ نبی جیؐ کا ازل سے
زنجیرِ ادب میری ہے گلزارِ مدینہ
ہاتھوں میں لئے پھول، صبا رقص کرے گی
جنت میں ذرا چھیڑ دو اذکارِ مدینہ
کیا دلکش و دلبر ہے گلی کوچوں کا منظر
کیا جنّتِ ارضی ہے چمن زارِ مدینہ
ہر ساعتِ ویراں کو عطا ہوتی ہے شبنم
سرسبز، الٰہی، رہے گلزارِ مدینہ
وہ آبِ خنک، ٹھنڈی کھجوریں، لبِ تشنہ
کیا خوب سے بھی خوب ہے افطارِ مدینہ
محدود ہے کب رحمتِ آقائے مکرّم
کونین کے سردار ہیں سردارِ مدینہ
سوچوں کے درِ شوق پہ دستک دو ہواؤ!
ہر موڑ پہ آجائے گا بازارِ مدینہ
ہر شخص بھروسے کے بھی قابل نہیں ہوتا
کھلتے ہیں غلاموں ہی پہ اسرارِ مدینہ
مَیں اُس کے کسی طاق میں رکھ آیا ہوں آنکھیں
ہمراز ہے، دمساز ہے دیوارِ مدینہ
اِمشب بھی ریاضؔ عالمِ رویا میں یقینا
برسیں گے مری آنکھ پہ انوارِ مدینہ
قطعات
آگ میں تبدیل کر بیٹھے ہیں ہر کھلیان کو
میرے آنگن میں مدینے کی ہوائیں بھیج دے
سبز شالیں دے قبولیت کی اِن کو اَن گنت
یا خدا! واپس مری ساری دعائیں بھیج دے
سیلِ تند و تیز میں ثابت قدم ہر دم رہیں
حوصلہ بستی کے سب گرتے مکانوں کو بھی دے
بھاگ جائیں آندھیاں الٹے قدم میرے خدا
عزمِ نو میرے قبیلے کے جوانوں کو بھی دے
*