عجب سا کیف ہے کشتِ ہنر کی آبیاری میں- ریاض حمد و نعت

عجب سا کیف ہے کشتِ ہنر کی آبیاری میں
رہوں محشر میں بھی مصروف میں مدحت نگاری میں!

مجھے پہلے ہی دن ہاتف نے خوشبخری سنادی تھی
خزاں کا داخلہ ممنوع ہے نعتوں کی کیاری میں

ہوائے خلدِ طیبہ سے ہوئی ہے دوستی جب سے
کروڑوں خوشبوئیں رقصاں ہیں بادِ نو بہاری میں

مرے گھر کے در و دیوار بھی اس کی گواہی دیں
کبھی لغزش نہیں آئی قلم کی جاں نثاری میں

ادب سے آئنوں میں عکس، حرفِ التجا لکھیں
قلم کو چوم لے باد صبا بے اختیاری میں

مواجھے میں مَیں زیرِ لب درودِ پاک پڑھتا ہوں
وقارِ دائمی پایا ہے مَیں نے انکساری میں

سوائے آپؐ کے آقاؐ، سرِ انوارِ رخشندہ
کسی کا نام سجتا ہی نہیں ہے زر نگاری میں

مدینے کی کھجوریں بانٹتا رہتا ہوں لوگوں میں
مری عمرِ رواں گذرے اسی خدمت گذاری میں

مدینے کے تصور میں رہیں ڈوبی مری آنکھیں
مری شام ادب گذرے، نبی جیؐ، انکساری میں

مجھے تاریخ کے اسباقِ خودداری ہوں پھر از بر
نہیں ہے عظمتِ رفتہ فقط اس خاکساری میں

چلو گنتے ہیں دن میلاد کی رتیا میں کتنے ہیں
ملا ہے کیا تجھے اے ہمسفر اختر شماری میں

خدا نے طشتِ رحمت میں کرم کے پھول بھیجے ہیں
مگر اولادِ آدم ہے پریشاں سنگ باری میں

*