مجرم ہوں، مَیں نے اپنے لُوٹے ہیں خود خزینے- ریاض حمد و نعت
مجرم ہوں، مَیں نے اپنے لُوٹے ہیں خود خزینے
مجھے ہتھکڑی لگا کر ابھی لے چلو مدینے
چپ چاپ، سرجھکائے، در پر کھڑا ہوں کب سے
آتے نہیں، نبی جیؐ، اظہار کے قرینے
سورج ہتھیلیوں پر اتریں عمل کے آقاؐ
گرد و غبارِ شب میں گم ہو گئے ہیں سینے
تاریخ کی عدالت مجھ سے یہ پوچھتی ہے
ماضی کے کھو گئے ہیں کس خاک میں دفینے
ہاتھوں میں ناخدا کے ماچس کی تیلیاں ہیں
منزل کی سَمت، آقاؐ کیسے بڑھیں سفینے
ہم عکس ڈھونڈتے ہیں ہر آئینے میں لیکن
ٹوٹے پڑے ہیں کب سے شبنم کے آبگینے
کچھ اِس قدر ہوا ہے مکر و ریا کا غلبہ
آقاؐ، ندامتوں کے آتے نہیں پسینے
لوٹی نہیں ہوائیں سرکارؐ کی گلی سے
کرنوں کے پھول مہکے اب ہو گئے مہینے
زنجیر پا بنے ہیں اپنے نقوشِ پا ہی
ملبے میں ہی ملے ہیں اب ارتقا کے زینے
لوٹا ہوں اُن کے در سے مَیں بھی ریاضؔ امشب
اشکوں میں رتجگے ہیں، آنکھوں میں ہیں شبینے
*