ہمسفر تھی راستوں کے پیچ و خم کی روشنی- ریاض حمد و نعت
ہمسفر تھی راستوں کے پیچ و خم کی روشنی
کس جگہ پہنچی نہیں میرے قلم کی روشنی
تُو نے کیا دیکھا نہیں چہرا مرا، آنکھیں مری
ساتھ لایا ہوں مدینے سے حرم کی روشنی
تیرے محبوبِ مکرمؐ کا ملے صدقہ مجھے
میرے کشکولِ دعا میں بھی کرم کی روشنی
آشیانوں سے نکل آئیں پرندے آج بھی
ہر طرف ہے آپؐ کے لطف و کرم کی روشنی
یا خدا! مقروض اُنؐ کی میری نسلیں بھی رہیں
اِن کی قسمت میں تُو لکھ میرِ اممؐ کی روشنی
کیا ملے گا اہلِ مغرب کی خوشامد سے ہمیں
اُنؐ کے در کی جب سوالی ہے عجم کی روشنی
آج بھی میں آخرِ شب نعت لکھّوں گا، ریاضؔ
پھول بن کر کھل اٹھے گی چشمِ نم کی روشنی
فردیات
قلم جب وجد میں آکر لکھے گا یارسول اللہ
زباں میری درودِ پاک کے گجرے بنائے گی
*
ان کو تلاشِ عظمتِ رفتہ کا دیں ہدف
بچّے، حضورؐ، نظرِ کرم کے ہیں ملتجی
*
پانچ مرلے کے مکاں پر شکر ہے رحمان کا
مدحتِ سرکارؐ سے بڑھ کر کوئی دولت بھی ہے
*