آپؐ میرِ اممؐ، آپؐ سلطانِ ما، سیدی مرشدی، خاتم الانبیاء- ریاض حمد و نعت
آپؐ میرِ اممؐ، آپؐ سلطانِ ما، سیدی مرشدی، خاتم الانبیاء
آپؐ کے نقشِ پا چومتی ہے ہوا، خاتم الانبیائ، خاتم الانبیاء
سطوتِ کل جہاں، قائدِ ہر زماں، آپؐ کے نقشِ پا، کہکشاں
کہکشاں
یا انیسِ قلم، حسنِ ارض و سما، سیدی، مرشدی، خاتم الانبیاء
آپؐ مقصودِ تخلیقِ شام و سحر، آپؐ مطلوبِ چشمانِ شمس
و قمر
یہ جہاں آپؐ کا، وہ جہاں آپؐ کا، خاتم الانبیائ، خاتم الانبیاء
محفلِ نعت میں آج آیا اتر، آسماں سے چمکتا ہوا چاند
بھی
آپؐ کی رہگذر کا وہ جگنو لگا، سیدی، مرشدی، خاتم الانبیاء
امن کی بھیک کی منتظر ہے ابھی، یا نبیؐ، نسلِ آدم سسکتی
ہوئی
نَسْلِ نو آپؐ کو دے رہی ہے صدا، خاتم الانبیائ، خاتم الانبیاء
تنگ ہے یہ زمیں تنگ ہے آسماں، امتِ بے نوا جائے گی اب
کہاں
اِس طرف انخلا، اُس طرف انخلا، سیدی مرشدی، خاتم الانبیاء
میری بستی کی زرخیز مٹی میں بھی، فصل پھر آج نفرت کی
بوئی گئی
موسمِ جبرِ شب پھر مسلط ہوا، سیدی مرشدی، خاتم الانبیاء
بستیوں کا مٹا دے گا نام و نشاں، ڈوب جائیں گی امید
کی کشتیاں
سیلِ آبِ غضب کا رُکے سلسلہ، سیدی مرشدی، خاتم الانبیاء
یا نبیؐ، آپؐ کی امتِ تشنہ لب، رزق ریگِ قضا کا بنے
کب تلک
تلخ ہے حرفِ مدحت کا بھی ذائقہ، سیدی مرشدی، خاتم الانبیاء
کوئی پرسانِ حالِ زبوں بھی نہیں، اور پہلا سا جذبِ دروں
بھی نہیں
آنسوؤں سے رقم ہے ہر اک حاشیہ، سیدی مرشدی، خاتم الانبیاء
کارواں عالمِ کسمپرسی میں ہے، مبتلا کب سے جرمِ ضعیفی
میں ہے
ناخدا میرے پھر کشتیاں دیں جلا، سیدی مرشدی، خاتم الانبیاء
خیمہ گاہوں سے اٹھتا رہا ہے دھواں، ہر طرف سسکیاں ہر
طرف ہچکیاں
عَصْرِ نو کی ملی ہے ہمیں کربلا، سیدی مرشدی، خاتم الانبیاء
ہے ریاضؔ آپؐ کا بحرِ آلام میں، اپنے من کی سلگتی ہوئی
شام میں
کیجئے اپنے شاعر پہ لطف و عطا، سیدی مرشدی، خاتم الانبیاء
قطعہ
نقشِ قدم حضورؐ کے ہیں روشنی کے پھول
نقشِ قدم حضورؐ کے مژدہ بہار کا
نقشِ قدم حضورؐ کے دستارِ زندگی
سرمایہ ہیں ریاضؔ یہ مدحت نگار کا
*
پھر کرم کی بھیک بھجوائیں مدینے سے، حضورؐ
قرض خواہوں کے تقاضے بڑھ رہے ہیں ان دنوں
*
مدحتِ سرکارؐ کے پھولوں کی اترے گی قطار
وادیٔ شعر و سخن میں خیمہ زن ہے روشنی
*