نام ہی طیبہ کا ہم کو جاں سے پیارا ہے بہت- ریاض حمد و نعت
نام ہی طیبہ کا ہم کو جاں سے پیارا ہے بہت
دلنشیں، روشن جبیں، مرکز ہمارا ہے بہت
روشنی کے لفظ کی تفہیم جب مشکل لگے
خاکِ شہرِ مصطفیٰؐ کا استعارہ ہے بہت
توڑ دی ہیں مَیں نے سب بیساکھیاں، آقا حضورؐ
آپؐ کا اور آپؐ کے رب کا سہارا ہے بہت
پھر اسے دامانِ رحمت میں چھپا لیں، یانبیؐ
آج کا انسان رنج و غم کا مارا ہے بہت
اِس جہاں میں، اُس جہاں میں، رہنمائی کے لئے
نعتِ سرکارِ دو عالمؐ کا ستارا ہے بہت
قتل گاہوں سے ہوائے شب ابھی لوٹی نہیں
دل بکھرتے آدمی کا پارا پارا ہے بہت
دیدۂ پُرنم کے اوراقِ ثنا پر آج بھی
اک جہانِ نو قلم کا آشکارا ہے بہت
کس کو حاجت ہے کسی زادِ سفر کی، ہمسفر
چشمِ رحمت کا غلاموں کو اشارا ہے بہت
کیا ملا مجھ کو جہالت کی شبِ بے نور میں
عمر بھر جھوٹے خداؤں کو پکارا ہے بہت
خوشبوؤ! اپنے مقدّر کو کرو جھک کر سلام
اُنؐ کی مدحت کے علاوہ ہر خسارہ ہے بہت
بادباں بنتی رہی اُنؐ کے وسیلے سے ہوا
کاغذی کشتی کو پانی میں اتارا ہے بہت
یہ کھُلا انسان پر، ہجرت کے دن، ہجرت کی شب
ہر سفینے کو مدینے کا کنارا ہے بہت
گرم اشکوں کو پرونے کا مجھے بخشا ہنر
کلکِ مدحت! مجھ پہ یہ احساں تمہارا ہے بہت
ہم اِدھر تاجِ مدینہ کی رعایا ہیں، ریاضؔ
حق پیمبرؐ کی عطاؤں پر ہمارا ہے بہت
فردیات
آبِ زم زم اور کھجوریں سب بجا اپنی جگہ
حال مجھ کو آپؐ کی گلیوں کے بچوں کا بتا
*
ہر حوالہ آپؐ کا زندہ حوالہ ہے حضورؐ
حیف، کِن مردہ ضمیروں سے ہے کر لی دوستی
*
نَسْلِ آدم کو شعورِ باہمی آقا حضورؐ!
آج انسانوں کے اندر بڑھ رہے ہیں فاصلے
*