سر برہنہ ہوں نہیں راہ میں سایہ مددے- رزق ثنا (1999)
سر برہنہ ہوں، نہیں راہ میں سایہ مددے
دھوپ کے گہرے سمندر میں ہوں آقاؐ مددے
عکس بکھرے ہوئے اشکوں میں سلامت کب ہیں
ہر قدم اہلِ نظر دیتے ہیں دھوکا مددے
آپؐ سے مانگی ہے سرکارؐ کرم کی چادر
ہاتھ اٹھے ہیں مرے جانبِ بطحا مددے
کل بھی تھے زندہ مسائل کی چتا میں لمحے
ہر طرف آج بھی ہے آگ کا دریا مددے
کب تلک موجِ حوادث کے مقابل ٹھہرے
سیلِ آفات میں ہے جان کی کٹیا مددے
میری غربت کے تماشائی ہیں میرے ساتھی
کوئی غم خوار نہیں کب سے ہوں تنہا مددے
بھوک اگتی ہے منڈیروں پہ سرِ شام و سحر
اب مسلسل ہو کرم والیٔ بطحا مددے
دکھ کی بارش میں بہت خوفزدہ رہتا ہوں
کرب کائی کی طرح پھیلا ہے مولا مددے
آدمی جیسے کھلونا ہو پسِ مرگ و حیات
زندگی جیسے ہو اک کانچ کی گڑیا مددے
ایک کہرام سا برپا ہے مری سوچوں میں
بام و در میں ہے کھلا غم کا دریچہ مددے
بوجھ اتنا کہ نہیں ہاتھ اٹھایا جاتا
آ پڑا کندھوں پہ اب شب کا ہمالہ مددے
تشنگی ہونٹوں کی دہلیز پہ ہے کاسہ بکف
جاں بلب عشق ہے سرکارِ مدینہؐ مددے
یانبیؐ مجھ پہ کرم، اور کرم اور کرم
ایک مدت سے مخالف ہے زمانہ مددے
حکم ہے حرفِ ندامت کو قلمزد کردوں
خوف سے سہما ہوا ہے مرا چہرہ مددے
مرکزِ عشق غلاموں نے بنایا ہے جسے
کسمپرسی کے ہے عالم میں وہ خطہ مددے
مَیں ریاضؔ آپؐ کا شاعر ہوں سرِ کرب و بلا
چشمِ تر میں ہوں سسکتا ہوا نوحہ مددے