مرے نبیؐ کے مدینہ کی رہگذر میں رہے- ریاض حمد و نعت
مرے نبیؐ کے مدینہ کی رہگذر میں رہے
ازل سے تا بہ ابد روشنی سفر میں رہے
زمیں پہ سرخ خراشیں بہت زیادہ ہیں
جمالِ گنبدِ خضرا شجر شجر میں رہے
قلم حضورؐ کی دہلیز سے چنے آنسو
مرا خیال ابھی قریۂ ہنر میں رہے
حضورؐ، عرض ہے یہ آپؐ کے غلاموں کی
نئی اڑان کی تہذیب بال و پر میں رہے
بوقتِ عدل سرِ حشر اے خدا سب کے
سحابِ رحمتِ سرکارؐ چشمِ تر میں رہے
لہو کا آخری قطرہ نچوڑ لے بے شک
ثنا کا موسمِ شاداب میرے گھر میں رہے
یہ کہہ رہی تھی گلستانِ آرزو کی ہوا
مرا وجود مدینے کے بام و در میں رہے
مرے خدا! درِ آقاؐ پہ حاضری کے وقت
کتابِ شہرِ ادب دستِ نغمہ گر میں رہے
ہوا کے شور سے خلقت نجات پائے گی
نبیؐ کا ذکر اگر عمرِ مختصر میں رہے
دعا ہے سر پہ ترے تاج ہو غلامی کا
مرے حضورؐ کے تو حلقۂ اثر میں رہے
فلک سے سبز پرندوں کے غول اتریں گے
ثنا کا رزق ابھی حجلۂ سحر میں رہے
حضورؐ، لکھا گیا ہے صبا کے آنچل پر
گلوں کا ذوقِ نمو، شاخِ بے ہنر میں رہے
یہ طے ہوا ہے، نبی جیؐ، خدا کی ہر بستی
اداس شام کے اجڑے ہوئے کھنڈر میں رہے
ریاضؔ، ارضِ تمدن کے گھپ اندھیروں میں
چراغِ سیرتِ اطہر، دل و نظر میں رہے
ثلاثی
حضورؐ، کتنے تضادات کے سیہ بادل
مرے وطن کے افق پر ہیں خیمہ زن کب سے
حضورؐ، کب سے مفادات کے ہیں ہم قیدی
*
ہزار وعدہ خلافی کے سانحے گذرے
ہزار جھوٹ ہوئے درج بابِ خدمت میں
حضورؐ، ارضِ وطن پر کرم کی بارش ہو
*
غریبِ شہر کی عزت نہیں رہی آقاؐ
غریبِ شہر سے بہتاں تراشیوں کا ہدف
خلافِ عدل ہے ہر حکم پادشاہوں کا
*