حکم سوئے ریگِ صحرا ابر پاروں کو ملے- ریاض حمد و نعت
حکم سوئے ریگِ صحرا ابر پاروں کو ملے
موسمِ خلدِ مدینہ مرغزاروں کو ملے
روشنی نقشِ کفِ پائے نبیؐ کی یاخدا
میرے بچوں کے مقدّر کے ستاروں کو ملے
آشیاں کب تک پرندوں کے درختوں پر جلیں
عافیت کا نور جنگل کے شراروں کو ملے
اب کے بھی شاخِ ثنا پر چاندنی کھِلتی رہے
اب کے بھی خوئے ادب تازہ بہاروں کو ملے
خود کشی کے ہیں دہانے پر کھڑی نسلیں مری
امنِ عالم کی بشارت غم کے ماروں کو ملے
آپؐ کے دامن سے وابستہ رہے چشمِ طلب
آپؐ کا آقاؐ سہارا بے سہاروں کو ملے
تشنگی کے خاتمے کی ہے بڑی اچھی خبر
غم کے دریا کے ابھی دونوں کناروں کو ملے
ذہن کی بنجر زمیں بھی منتظر ہے، یانبیؐ
قافلہ ابرِ کرم کا ریگ زاروں کو ملے
سر برہنہ ہے ریاضِؔ بے نوا، آقاؐ حضورؐ
پیڑ سایہ دار جلتے رہگذاروں کو ملے
ثلاثی
ہوائے شہرِ مدینہ کے راستوں پہ، حضورؐ
دل و نگہ نے بچھائے ہیں تخت خوشبو کے
مری نظر میں ستارے سے جھلملاتے ہیں
*