گرچہ ہوائے کرب یہ ملکِ عدم کی ہے- ریاض حمد و نعت

گرچہ ہوائے کرب یہ ملکِ عدم کی ہے
لیکن ثنا زبان پہ شاہِ اممؐ کی ہے

مہکی ہوئی ہے گنبدِ خضرا کی چاندنی
گھر میں فضا ازل سے اسی کیف و کم کی ہے

دونوں ہتھیلیوں پہ ہیں مدحت کے آفتاب
دامن میں خاکِ پاک درِ محتشم کی ہے

پھر ہے فضائے طائفِ عصرِ رواں محیط
آقاؐ گرفت روح پہ دستِ ستم کی ہے

عصرِ جدید کی میں نئی کربلا میں ہوں
سر پر گھٹا نبیؐ کے مسلسل کرم کی ہے

بادِ صبا کے لب پہ مری نعت ہو حضورؐ
شہرِ سخن میں بات کسی کے بھرم کی ہے

ہفت آسماں کی مصحفِ حسن و جمال پر
آقاؐ بہار آپؐ کے نقشِ قدم کی ہے

صبحوں کی تازگی بھی مقدّر بنے حضورؐ
میری جو داستاں ہے وہ شامِ الم کی ہے

تعمیر آدمی کی ہو، سرکارؐ، شخصیت
پھر آئینوں پہ گرد رہِ شامِ غم کی ہے

الجھی ہوئی ہیں ذہن کی پگڈنڈیاں حضورؐ
شورش قلم میں سوچ کے ہر پیچ و خم کی ہے

اعجاز ہے یہ صاحبِ قرآن کا ریاضؔ
کیا خاک دلکشی یہ کسی کے قلم کی ہے

*