مخزنِ عشقِ پیمبر ہے مرا تازہ کلام- ریاض حمد و نعت
مخزنِ عشقِ پیمبر ہے مرا تازہ کلام
اِس کو حاصل ہے سرِ لوح و قلم اذنِ دوام
چاند تاروں کا عمامہ باندھ کر نکلے قلم
خلدِ طیبہ کی ہواؤں کو کرے جھک کر سلام
آپؐ ہی ہیں آبرو ارض و سما کی یانبیؐ
آپؐ ہی خیرالبشرؐ خیرالوریٰ، خیرالانامؐ
آپؐ کی خاطر ہوئی تخلیقِ صبحِ دلنواز
آپؐ کی خاطر ہوا ہے روشنی کا اہتمام
دلکشی مدحت نگاری کی رہے دل میں مقیم
خوشبوئیں، یارب! کریں محشر تلک گھر میں قیام
آج بھی لایا ہوں پاکستان کے آنسو حضورؐ
آج بھی حاضر پسِ دیوار ہے آقاؐ، غلام
مسندِ کبر و ریا پر جلوہ گر ہے تیرگی
کون دے گا، یاخدا! جھوٹے خداؤں کو لگام
درگذر کرنے کی عادت کا نشاں باقی نہیں
انتقام و انتقام و انتقام و انتقام
جھوٹ کی ہونے لگی ہے تاجپوشی، یارسولؐ
عدل کی میزان کا ہونے لگا ہے انہدام
خون آلودہ سے موسم ہیں مقدّر میں ریاضؔ
ہو چکا تازہ ہواؤں کے سفر کا اہتمام
کون سنتا ہے ریاضِؔ بے نوا کی سسکیاں
مٹ گیا ہے آدمیت کا سرے سے احترام
*