ردائے شامِ تذبذب بکھر بکھر جائے- ریاض حمد و نعت
مرے خدا!
مرے حاجت روا
مرے خالق
بساطِ ذہن کی پگڈنڈیوں پہ اترا ہے
عجیب موسم بے نور بے صدا اب کے
عجیب مخمصے میں ہے ہجوم سوچوں کا
عجیب رت سی ہے
چھائی ہوئی گلستان پر
حصارِ خوفِ ندامت میں ہیں مری آنکھیں
مرے خدا!
مرے حاجت روا
مرے مالک!
کھڑا ہے آئینہ خانے میں عکس مبہم سا
عجیب شامِ تذبذب ہے
میر ی پلکوں پر
ہوا کے ہاتھ میں
نقش و نگارِ ہستی ہیں
ہوائے گرد نے
نقش و نگارِ ہستی کو
دیے جلانے کا اب تک ہنر نہیں بخشا
ہر ایک سمت ہے
امواجِ مضطرب کا جلوس
یقیں کے پھول کھلاتی ہوئی ہوا نے کہا
خداسے فصلِ گل و لالہ کی ردا مانگو
مرے خدا
مرے حاجت روا
مرے مولا!
حصارِ خوف میں اک ایک میرا لمحہ ہے
برہنہ سر ہے مری تشنہ آرزوؤں کا
محیط چادرِ رحمت ہو میرے آنگن پر
مجھے حضورa کے نعلین کے تصدق میں
حصارِ خوف سے یارب، نجات یوں دینا
غبارِ حرفِ ندامت کے زرد ہاتھوں میں
ردائے شامِ تذبذب بکھر بکھر جائے
قطعہ
مَیں اک زخمی پرندہ ہوں، مجھے اڑنے کی طاقت دے
چمن میں آشیاں کے چند تنکے بھی نہیں ملتے
کوئی تتلی نہیں اڑتی، کوئی جگنو نہیں اڑتا
گلابِ سرخ اب شاخِ برہنہ پر نہیں کھلتے