مَیں تفہیمِ حروفِ التجا ہوں کر مدد میری- ریاض حمد و نعت
ترے در پر خدایا! آ گرا ہوں کر مدد میری
غلافِ کعبہ کو تھامے کھڑا ہوں کر مدد میری
بہت مشکل ہے سانسوں کا تسلسل بھی رہے قائم
عجب امراض میں مَیں مبتلا ہوں کر مدد میری
ترے محبوبؐ کی ذاتِ مکرم ہی وسیلہ ہے
الٰہی! اک غلامِ مصطفیٰؐ ہوں کر مدد میری
مجھے تاجِ مدینہ کی رعایا ہی میں رکھ شامل
مدینے کی طرف میں چل رہا ہوں کر مدد میری
مصائب کی ہوائے بے اماں پھرتی ہے بستی میں
مَیں عَصْرِ خوف کی اک کربلا ہوں کر مدد میری
دکھائی کچھ نہیں دیتا مسائل کے اندھیروں میں
سرِ بازار مقروضِ انا ہوں کر مدد میری
مرے ہونٹوں پہ بھی لکھ دی گئی ہے تشنگی، یارب!
بظاہر دیکھنے میں خود گھٹا ہوں کر مدد میری
اذیت ناک لمحوں کی گرفتِ ناروا میں ہوں
مَیں تفہیمِ حروفِ التجا ہوں کر مدد میری
تمناؤں کو اپنی ہچکیوں میں باندھ لایا ہوں
ترے در پر کھڑا مَیں رو رہا ہوں کر مدد میری
زمانے بھر کی نفرت میرے کشکولِ طلب میں ہے
مَیں محرومی کے جنگل میں پڑا ہوں کر مدد میری
جلے خیموں میں کب تک میں سجاؤں گا جلی آنکھیں
حوادث کی ہواؤں سے بجھا ہوں کر مدد میری
مرے لفظوں کی سب بیساکھیاں کاغذ کی کشتی ہیں
چراغِ آرزو بن کر جلا ہوں کر مدد میری
جزیرے میں قبائل ڈھول پیٹے جائیں گے کب تک
بھنور میں کشتیوں کا ناخدا ہوں کر مدد میری
چمن زارِ دعا میں چاندنی افلاک سے اترے
مَیں اپنی ذات ہی میں انخلا ہوں کر مدد میری
مرے بچوں کے اکثر خواب تعبیریں نہیں رکھتے
مَیں خود سہمی ہوئی سی اک صدا ہوں کر مدد میری
مَیں طشتِ آرزو میں رکھ کے لایا ہوں قلم اپنا
حروفِ نو سے بھی نا آشنا ہوں کر مدد میری
مرے حصے کا پانی بھی چرا کر لے گئے ظالم
مَیں خالی آبخورے دیکھتا ہوں کر مدد میری
مری کشتِ ادب میں پھول کھلتے ہیں غلامی کے
نبی جیؐ کا غلامِ بے نوا ہوں کر مدد میری
تُو خالق ہے تری تخلیق نے تجھ کو پکارا ہے
کروں کیا عرض؟ چشمِ تر بنا ہوں کر مدد میری