اے خدا! مشکل کشا، آسانیاں آسانیاں- ریاض حمد و نعت
مہربانی مجھ پہ فرما، اے خدائے مہرباں!
ختم ہو جائے مری محرومیوں کی داستاں
صرف تنہا ہے تری ہی ذات اے رب کریم!
در گذر کی التجا ہے میرے اشکوں میں رواں
اپنے بندوں کو تمیزِ خیر و شر کا دے ہنر
کفر بکتا ہے تسلسل سے امیرِ کارواں
جس قدر جھوٹے خدا ہیں سب کی اب تدفین ہو
ہو نصابِ عشق ہر انسان کا، حکمِ اذاں
عاجز و مسکیں سا بندہ ہوں، مری اوقات کیا
کیا لکھے میرا قلم اور کیا کہے میری زباں
وادیوں میں آگ برساتا ہے ابلیسی نظام
خوف کی چادر میں ہیں لپٹے ہوئے پیر و جواں
کب تلک بادِ صبا پہنے گی صرصر کا لباس
کب تلک ٹوٹیں گی گلشن پر ہزاروں بجلیاں
سر کشی موجوں کی کب سے ہے ہماری ہمسفر
کب نہیں الجھے ہوا سے کشتیوں کے بادباں
میرے بیٹے پر کرم کی بارشیں دن رات ہوں
اے خدا! مشکل کشا، آسانیاں آسانیاں
اُنؐ کے قدموں کا ملے دھوون مری اولاد کو
رزق دے وافر تُو ان کو اے خدائے آسماں!
سرورِ کونینؐ کے صدقے میں سب کو بخش دے
تیرے بندے تیرے در سے اٹھ کے اب جائیں کہاں؟
ہر طرف نمرود ہیں، فرعون ہیں، شدّاد ہیں
اک قیامت ہو گئی برپا زمیں پر ناگہاں
خونِ ناحق میں ہے کس کا گھر کا گھر ڈوبا ہوا
کس کے آنگن سے اٹھا شامِ غریباں کا دھواں
پھول سے بچے لہو کی آگ میں جلتے رہے
الامان و الامان و الامان و الاماں
سجدہ ریزی چشمِ تر کی ہو مرے مولا! قبول
لرزہ بر اندام ہے کب سے مصلّے پر گماں
چھپ گیا خورشید مغرب کے اندھیروں میں اُدھر
چھپ گئی گردِ غبارِ شب میں روشن کہکشاں
یاخدا! ہے مضطرب حوا کی بیٹی آج بھی
اس کے سر پر تیری رحمت ہر گھڑی ہو زرفشاں
سسکیاں لپٹی ہوئی ہیں ہر دعا کے ہاتھ سے
خامشی کے ہیں سمندر میں مرے نطق و بیاں
باد و باراں میں کھڑا ہے ایک مدت سے کوئی
جانتا ہے تو کہ اس کی کاغذی ہیں کشتیاں
یاخدا! میرے خدا! فریاد سن، فریاد سن
آگ کی بارش میں ہیں پھر بستیوں کی بستیاں
تیری رحمت کے گھنے بادل کہاں روپوش ہیں
بن گئیں حرفِ دعا سوکھی ہوئی سب کھیتیاں
خوشۂ گندم دکھائی دے تو دے کیسے مجھے
گم ہوئی ہیں میرے کھیتوں میں سنہری بالیاں
میرے مشکیزوں میں اک قطرہ بھی پانی کا نہیں
چھین لیں مجھ سے خنک پانی کی کس نے بدلیاں
گھر کے دروازے مہاجن پر کسی نے کھول کر
اس کے سر پر اپنی غیرت کی رکھی ہیں گٹھڑیاں
عکس غائب ہو گئے، خالی ہوئے سارے فریم
چوکھٹوں میں رہ گئیں باقی مری حیرانیاں
ہم کہاں مالک رہے اپنے خزانوں کے ریاضؔ
رہزنوں کے ہاتھ پر رکھ دی ہیں ان کی چابیاں