غریبِ شہر- ریاض حمد و نعت
غریبِ شہر امارت ضرور ہے شاعر
گدازِ عشقِ پیمبرؐ ہے اِس کے سینے میں
غنا و فقر کی دولت ہے اِس کے کاسے میں
ثنائے مرسلِ آخر کے پائے تخت میں یہ
فصیلِ شب پہ ہزاروں چراغ رکھتا ہے
ثنا کے نقرئی سکے ہیں اِس کے ہاتھوں میں
کتابِ حمد و ثنا کے ورق ورق پہ یہ
فلک کے چاند ستارے سجاتا رہتا ہے
زرِ ادب کے خزانے میں حق تصرّف کا
رکھا ہے ا ِس کی جبلت میں تو نے ہی مولا!
وقارِ لوح و قلم شاملِ فرائض ہے
(زمانہ اہلِ محبت سے بے خبر ہی رہا)
ہوس کدوں کے پجاری یہ غور سے سن لیں
غریبِ شہر امارت ضرور ہے شاعر
غریبِ شہرِ محبت نہیں… خیال رہے
زرِ خلوص مقدّر ہے اُنؐ کے شاعر کا
نہیں ہے اطلس و کمخواب جسم پر جس کے
نہ تاج سر پہ جواہر کا جگمگاتا ہے
نہ تخت جس پہ ہوا آبِ زر کا چھڑکاؤ
مگر عجیب سا منظر درِ نبیؐ پر ہے
وہی ریاض جو دنیا کی ٹھوکروں میںتھا
حصارِ چشم کرم میں ازل سے رہتا ہے
زرِ خلوص کی تقسیم، اِس کا منصب ہے
ہر ایک زائرِ طیبہ کے ہاتھ پر بوسے
سجا رہا ہے محبت سے رات دن شاعر
وہی ریاض نکما تھا جو زمانے میں
وہی ریاض پیمبرؐ کا ایک شاعر ہے
یہی حوالہ قیامت میں کام آئے گا
مرے خدا!
مجھے عشقِ نبی ؐ کی دولت دے
قلم کی نوک پہ میلہ لگے بہاروں کا
مرے خدا!
میں لکھوں نعتِ مرسلِ آخرؐ
ورق پہ چاند ستاروں کے قافلے اتریں
حروفِ نعتِ پیمبرؐ کو چوم لیں جھک کر
خلش ضمیر کی زندہ رہے قیامت تک
فردیات
اسی امید پہ چلتا رہا ہے کارواں اپنا
کبھی تو سبز لمحوں کا بھی نخلستان آئے گا
تلاشِ رزق میں اڑتے ہوئے پرندوں کا
مرا خدا ہے نگہبان دشت و صحرا میں