بشر کرتا رہے گا فیصلے کب تک خدا بن کر- ریاض حمد و نعت
کبھی اشکِ رواں بن کر، کبھی دستِ دعا بن کر
تری چوکھٹ پہ آیا ہوں مَیں حرفِ التجا بن کر
مری پیاسی زمینوں پر، مرے گھر کے مکینوں پر
تری رحمت برستی ہی رہے کالی گھٹا بن کر
تُو ہر مخلوق کا معبود ہے، مقصود ہے، یارب!
رہوں سجدے کی حالت میں، مَیں تیری ہی رضا بن کر
مرے بچّوں کو دے اتنے وسائل بزمِ ہستی میں
کھُلے نیلے سمندر میں رہیں یہ ناخدا بن کر
مری محرومیوں کو جانتا ہے تُو مرے مولا!
ہوائے مہرباں شب بھر رہے ابرِ عطا بن کر
مَیں پتھر کی چٹانوں کی اگر صورت میں بھی ہوتا
قدم بوسی مَیں کرتا آپؐ کی غارِ حرا بن کر
لپٹ جاتا میں قدموں سے بوقتِ ہجرتِ طیبہ
بساطِ عشق میں سمٹا ہوا مَیں راستہ بن کر
نبی جیؐ کے وسیلے سے، نبی جیؐ کے تصُّدق میں
ملیں سورج کی کرنیں حشر میں بادِ صبا بن کر
مرے خالق! تُو مجھ کو حوصلہ دینا کہ تنہا ہوں
صراطِ عشق سے گذروں گا میں کلکِ ثنا بن کر
ہوا نے لاکھ گرہیں ڈال دی ہیں میری سانسوں میں
تُو میرے ساتھ رہتا ہے مرا مشکل کُشا بن کر
ترے محبوبؐ کے مَیں نام لیوائوں میں شامل ہوں
مَیں گردابِ قضا میں ہوں، تُو آ حاجت روا بن کر
زمیں پر قصرِ شاہی کے نشاں ہیں اب تلک باقی
بشر کرتا رہے گا فیصلے کب تک خدا بن کر
اٹھے جو کاروانِ شوق کے اقدام کی مٹی
مرے زخموں پہ پڑتی ہی رہے خاکِ شفا بن کر
ملے روشن دنوں کی تمکنت پھر اے خدا میرے
ملے پھر عظمتِ رفتہ پر و بالِ ہُما بن کر
الہٰی! جن مفاداتِ رذیلہ کا مَیں قیدی ہوں
مرا خوں چوستے ہیں وہ مری جھوٹی انا بن کر
الہٰی! انخلائے لشکرِ جبرو تشدد تک
سرِ مقتل رہوں زندہ شعورِ کربلا بن کر
مجھے بھی خوش نوائی کا سلیقہ دے، قرینہ دے
لبِ تشنہ پہ رہتا ہوں نوائے بے نوا بن کر
مری اوقات ہی کیا ہے مگر اے قادرِ مطلق!
قلم میرا لکھے تیری ثنا برگِ حنا بن کر
فرشتے نعت کا مصرع اٹھائیں گے محبت سے
سرِ محشر میں اٹھوں گا تری حمد و ثنا بن کر
مرے بس میں، ریاضؔ بے نوا! ہوتا تو محشر تک
پڑا رہتا درِ اقدس پہ مَیں اُنؐ کا گدا بن کر