جبینِ امت پہ لکھا دیا ہے ہوا نے حرفِ زوال آقاؐ- رزق ثنا (1999)
جبینِ امت پہ لکھ دیا ہے ہوا نے حرفِ زوال آقاؐ
مدد مدد یارسولِ برحق، کرم کرم بے مثال آقاؐ
رہے گا کب تک غبارِ کشتِ مراد دوش ہوائے غم پر
گھٹا کے بھیگے ہوئے لبوں پر سلگ اٹھا ہے سوال آقاؐ
کبھی تو آنگن کے پیڑ اپنے بدن پہ اوڑھیں گلاب موسم
دیارِ ہجر و الم میں اترے کبھی تو شامِ وصال آقاؐ
مَیں اس برس بھی ثناء کے گجرے لئے کھڑا ہوں رہِ وفا میں
طواف کرتے ہیں سبز گنبد کا میرے خواب و خیال آقاؐ
جو شہرِ طیبہ کی خاکِ انور سے کررہے ہیں کشید کرنیں
جچے گا ان کی نظر میں کیسے کسی کا حسن و جمال آقاؐ
ہم اپنا ماضی بھلا چکے ہیں نقوشِ عظمت مٹا چکے ہیں
اداس امت برہنہ سر ہے، ملے دعائوں کی شال آقاؐ
سپاہِ شب نے چھپا دیئے ہیں حنوط لاشے جلی زمیں میں
یہ بے نوائی حصارِ شر میں بنی ہے جاں کا وبال آقاؐ
ہتھیلیوں پر سروں کے سورج سجا کے نکلی ہیں میری نسلیں
غلام زادوں کے اس وطن کی ہو اب تو عظمت بحال آقاؐ
مَیں خود کو مدحت نگار لکھّوں، خزاں بھی ہو تو بہار لکھّوں
عطا کریں مجھ سے بے ہنر کو ثنا گری میں کمال آقاؐ
کرم کی تھالی میں رکھ کے رحمت کے پھول لائیں صبا کے جھونکے
ریاضؔ مدت سے شہرِ جاں میں پڑا ہوا ہے نڈھال آقاؐ