گلشنِ نعت کا گلاب- کلیات نعت
(فرید ملت ریسرچ انسٹیٹیوٹ کے سکالر سبط جمال پٹیالوی نے ’’مطافِ نعت‘‘ کا نسخہ
جناب گوہر ملسیانی کو پیش کیا تو انہوں نے پڑھنے کے بعد نعت کی محبت میں یہ تحریر لکھ
کر کتاب کی اگلی اشاعت میں شامل کرنے کے لئے بھجوا دی۔ نعتیہ ادب کے فروغ و ارتقا میں
آپ کی مساعی جمیلہ ناقابل فراموش ہیں۔ تنقید، تحقیق، شاعری اور نثری ادب کے شعبوں
میں آپ نے علم و آگہی کے چراغ روشن کئے۔آپ 25 فروری 2017ء کو رحلت فرما گئے۔ اللہ
کریم انہیں درجات کی بلندی عطا کرے۔ آمین)
صنف نعت کی وسعت پذیری کا سلسلہ روز افزوں ہے۔ تاریخ نعت کے چمنستان میں گلہائے رنگا
رنگ کی بہار ہے۔ گذشتہ تقریباً تین سو سال کے ادب کا جائزہ لیں تو شعری اظہار میں اسلامی
تہذیب کے اثرات نمایاں نظر آتے ہیں۔ ہر مسلمان یقین رکھتا ہے کہ دین اسلام کا مرکزی
نقطہ ایمان ہے اور اس کی تفصیل توحید، رسالت اور آخرت کے عقیدے میں مضمر ہے۔ چنانچہ
ایمان کے اولین جزو لا الہ اللہ کو دل و جان سے تسلیم کرتا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کو
مالک، خالق، رازق اور معبود جاننا ہے۔ اس کی ذات، صفات اور اختیارات میں کسی کو شامل
نہیں سمجھنا ہے۔ اسی عقیدہ سے شعر و سخن میں صنف حمد و مناجات ظہور میں آئی۔
ایمان کا دوسرا جزو رسالت ہے۔ یعنی اس کائنات میں جو تخلیق آدم کے بعد بنی نوع انسان کی رہنمائی کے لیے جتنے انبیاء و رسل علیہم السلام تشریف لائے وہ برحق ہیں۔ وہ سب دین حق کی دعوت دینے کے لیے آئے اور ان سب کے آخر میں حضرت محمد ﷺ قیامت تک کے لیے اللہ تعالیٰ کے آخری نبی ہیں۔ چنانچہ کلمۂ توحید کے دوسرے جزو محمد رسول اللہ کو دل و جان سے تسلیم کرنا اسلام میں داخل ہونا ہے۔ اسی سے شعر و سخن میں جو صنف ادب کا حصہ ہے، وہ صنف نعت ہے۔ گویا صنف نعت ایمان کا حصہ ہے۔ یہ رضائے الٰہی اور سعادتِ اُخروی کے حصول کا ذریعہ ہے۔
انیسویں صدی کے اواخر اور بیسویں صدی کے اوائل میں شعرائے اردو نعت نگاری کی طرف نئے طرز احساس کے ساتھ متوجہ ہوئے۔ خصوصاً الطاف حسین حالی اور علامہ محمد اقبال کے فکر و خیال، اسلوب اورو طرزِ بیان سے نعت کو نیا آہنگ ملا۔ شانِ بشریت کی سادگی و پرکاری کے ساتھ ساتھ سیرت و کردار کے فکر میں تصورات بھی نعت کے مضامین میں ضیا بار ہوئے۔ تخلیق نعت کے ساتھ ہی تحقیق و تنقید کے اشارات بھی صنف نعت کو درخشاں کرنے لگے۔ یوں صنف نعت خصوصی طور پر ادب کی محبوب صنف بن گئی۔ اسلام کے خلاف مغربی سازشوں اور دیگر حالات کی یورشوں نے بھی تعلیمات احمد مرسل، احسن و اجمل ﷺ اور اسوہ و سیرت کے مختلف پہلوؤں کو صنفِ نعت کے مضامین میں ضوفشاں کرنے کی تحریک کو ابھارا۔ خلقِ عظیم، ایثار، محبت، اخوت، غم گساری، جرأت و ہمت اور عزیمت کے انوار خیر البشر ﷺ کی حیاتِ طیبہ سے چنے گئے۔
یہ سلسلہ بہارِ نعت کا سلسلہ، اصنافِ شعر و ادب میں ایک مدت سے جاری و ساری ہے۔اردو ادب میں نعتیہ شاعری اپنا ارتقائی سفر طے کرتی ہوئی بیسویں صدی کے آخری تین چار عشروں میں اس قدر فروغ پا گئی کہ ذرائع ابلاغ، اخبارات اور الیکٹرانک میڈیا نعت کی محفلیں سجانے لگے۔ ادبی تقریبات اور نعتیہ مشاعرے، نغمہ ہائے مدحت سے گونجنے لگے۔ ہر شاعر نعت کو اپنی متاع عزیز بنانے لگا۔ بلکہ وہ شاعر جو نعت کو ایک صنف تسلیم کرانے سے گریزاں تھے، نعت کہنے لگے۔ دینی اور تہذیبی سطح کے حالات بھی اثر انداز ہونے لگے۔ علمی ترقی فلسفیانہ فکر اور معاشی و معاشرتی تبدیلیوں نے بھی نعت کو نئے مضامین سے مالا مال کیا۔
اس طرح جدید نعت میں نئے نئے موضوعات لوؤ لوؤ ومرجان کی طرح دمکنے لگے۔ یہاں تک کہ اکیسویں صدی میں ایسے نعت نگار منصۂ شہود پر نمودار ہوئے جنہوں نے نعت کے کینوس کو وسعت عطا کی۔ ان کے اسلوبِ سخن اور اندازِ بیان نے صنفِ نعت کو معراج کمال تک پہنچا دیا۔ احساسات و جذبات میں عشقِ رسول ﷺ کے سدا بہار پھول مہکا دیے اور صنف نعت کو اصنافِ شعر و سخن کی ہر دل عزیز صنف بنا دیا۔ ان تخلیق کاروں کی تحقیقات کے حسن و جمال نے اس صدی کو نعت کی صدی کا شرف بخشا۔ انہی میں جناب شیخ عبدالعزیز دباغ نعت کے گوہر تابدار ہیں۔
ان کے عشق و عقیدتِ سرورِ عالم، خلقِ مجسم ﷺ میں ایسی رفعتیں ہیں، جس کا سلسلہ باری تعالیٰ کی رضا سے اطاعت و محبت مرسل خاتم ﷺ تک پہنچتا ہے۔ وہ کتاب نور کی آیات سے محبت و عقیدت کے گہر ہائے گرا نمایہ حاصل کرتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اطاعت، عشق و محبت اور خلوص و مؤدت شاعرِ نعت کے احساسات و جذبات میں محسن انسانیت ﷺ کے لطف و محبت کے بحر بیکراں میں ابھرتی ہوئی ایسی موجیں ہیں جو انسان کی حیات مستعار میں ایسی عقیدت کو ابھارتی ہیں کہ فخرِ موجودات، ارفع، درجات ﷺ کی تعلیمات لدنی اور فیوض روحانی کی لذتیں تسکین جان بنتی ہیں۔ محبت کی دلربائیاں جذب صادق کو گلاب رنگ کرتی ہیں۔ فکر و خیال کے اسلوب کو خوش آہنگ کرتی ہیں۔ پھر صداقت کی روشنی قلم کا نور بن جاتی ہے اور نعت نگار کے دل کا سرور بن جاتی ہے۔ مدحت میں عشق کی بہاروں کا اظہار لطفِ سرمد بن جاتا ہے۔ اسی دریائے محبت سے رضائے رب العالمین کے سوتے پھوٹتے ہیں۔ ’’مطاف نعت‘‘ میں ایسے کئی چشمے نغمہ سنج ہیں جو حضرت عزیز کے عشق سرورِ عالم ﷺ کو قلب و نظر کا قرار بنا دیتے ہیں۔ یہ تابشیں ان کے اسلوب کو شعلہ بار بنا دیتی ہیں۔ اسی عشق کو وہ اطاعت کا گلزار اور رحمت کرد گار کہتے ہیں :
رنگ تعظیم سے گلزارِ اطاعت مہکے
میری سانسوں میں ادب بن کے محبت مہکے
دل میں وفورِ شوق کا طوفان بپا رہے
آنکھوں میں انتظار کا دریا رکا رہے
عشق نبی ہی قوم کا سرِ حیات ہے
محبوبِ حق کی رحمتوں کا در قریب ہے
آپؐ کی یاد میں بیتاب ہے دل بھی میرا
اس کی دھڑکن مری آہوں کی صدا لگتی ہے
جب عشق کی بھٹی جلتی ہے اور من مجنوں بن جاتا ہے
وہ کملی کا سایہ کرتے ہیں، رحمت کا مینہ برساتے ہیں
مل جائے ایک جست میں پھر منزل رضا
راہِ وفا میں عشق کی سیرت عطا کریں
اس کی سوچیں ماہِ عشقِ مصطفیؐ کی چاندنی
دل چکور اپنا بنا کر چاندنی میں تیرنا
وہ جن کے دل میں جلیں عشق مصطفی کے چراغ
وہ نور بانٹتے ہیں، آفتاب لگتے ہیں
ماقبل بعثت سرورِ کائنات ﷺ سے لے کر ہر عہد میں نغماتِ نعت کی ضیائیں جگمگا رہی ہیںاور ایک نورانی روایت بن گئی ہیں۔ درود پاک اور مدحت رسول ﷺ عصر حاضر میں شب و روز کی جاوداں روایت ہے اور اسلامی تہذیب کی پرکشش قدر ہے۔ یہ زمان و مکان میں محدود نہیں ہے۔ اس میں کسی عہد میں بھی جمود نہیں ہے ہر زمانے میں اس کی تجدید ہوتی رہی ہے۔دورِ حاضر میں درود و صلوٰۃ کے مہکتے پھولوں کے گلزار دیکھے۔ شعرائے مدحت کے نغمات میں ضیا بار افکار دیکھے۔ کس قدر محرمِ اسرار کردگار، سرورِ انبیاء ﷺ کی بے مثل فضیلتوں کا مسحور کن اظہار ہے۔ یہ درود اور مدحتوں کی پر بصیرت ضیائیں شیخ عبدالعزیز دباغ کے ’’مطافِ نعت‘’ کے اشعار میںدرخشاں نظر آتی ہیں۔ تازہ اور نکھرے ہوئے گلابوں کی مہکاریں حسین و جمیل خیالوں میں پھیلی ملتی ہیں۔ ان گہر ہائے گرانمایہ کی تابانی دیکھیے۔
ذکر نبی کی اتری سماعت میں چاندنی
گلشن درود و نعت کا لب پر کھلا رہا
درود پڑھنا شرابِ طہور پینا ہے
پڑھو کہ نشہء موج قرار آجائے
یہ شش جہات، یہ چرخِ کبود کی دنیا
ورائے سدرہ وہ ربِّ ودود کی دنیا
ہے ایک جشن بپا کائنات میں ہر سو
بسی ہوئی ہے سلام و درود کی دنیا
درِ مصطفیؐ پہ جا کر میں نے عزیز دیکھا
محوِ ثنا دو عالم، محوِ درود رب ہے
جب ہجر کا دریا چڑھتا ہے یادوں کے کنارے کٹتے ہیں
ایسے میں درودوں کے نغمے تسکین کا ساماں کرتے ہیں
کھلی کلیاں، فضا مہکی، اٹھے بادل درودوں کے
بنی رم جھم سلامی کی، یہ موسم ہے عقیدت کا
زبان پر نعت ہے اور دل مزین ہے درودوں سے
چمکتا ہے میرے سینے میں نور ان کی محبت کا
آخر شب چشم تر کی شبنمی برسات میں
عشق میں بھیگے درودوں کے اگاتا ہوں گلاب
جناب عزیز کے گلدستہ ’’مطافِ نعت‘‘ میں ایک آزاد نظم ’’حضور ﷺ نگہہ کرم‘‘ بھی درود و نعت کی دلکش صداؤں سے گونج رہی ہے جذبات کا ایک سمندر ہے، جس میں موجیں مچل مچل کر، اچھل اچھل کر عشق و مستی ڈوبی فطرت پر درود و سلام گا رہی ہیں۔
گلشنِ نعت میں ذکر رحمت للعالمین ﷺ کی مہک ہر سو پھیلی ہوئی ہے۔ ہمارا یہ ایمان کامل ہے کہ سرکار دوعالم ارض و فلک، دشت و جبل کے باسیوں، آجر و مزدور اور تونگرونادار بلکہ پوری کائنات کے لیے رحمت ہیں، اسی لیے تو فرما دیا کہ آپ ﷺ رحمت للعالمین بنا کر بھیجے گئے ہیں۔ وما ارسلنک الا رحمت للعالمین۔ سیدِ مکی و مدنی و عربی ﷺ کی کرنیں چار دانگ عالم میں پھیلی ہوئی ہیں۔ نعت نگاروں کے گلستانِ نعت میں یہی رحمت کی ضیائیں کئی فکر و اسلوب کے مناظر کو جگمگاتی ہیں۔ یہی طرزِ بیان کی شگفتگی اور فن کو پختگی عطا کرتی ہیں۔ استعاروں کے نگینے اور تشبیہات کے خزینے بخشتی ہیں۔ جنابِ عزیز دباغ کے خیالات وافکار میں بھی رحمت کے انوار کی بوقلمونی اور لطف و کرم کی فراوانی کے موضوعات کی ایک کہکشاں سجی ہوئی ہے۔ وہ رحمت کے ان مضامین کے تنوع اور جدت کی آبیاری خون جگر سے کرتے ہیں۔ یوں سمجھ لیجئے کہ سحاب رحمت سے برستے موتیوں کا شمار مشکل ہے۔ آئیے، گہرہائے رحمت کی چمک دمک سے جان و دل مستنیر کر کے لطف اٹھاتے ہیں۔
چلتی رہتی ہے مدینے کی ہوائیں رات دن
بانتی رہتی ہیں ان کی رحمتیں شام و سحر
ان کی یادوں ہی میں بھیگا ہوا رہتا ہوں عزیز
جو برستی رہے رحمت کی گٹھا یاد آئے
امت خجستہ حال ہے شدت کی دھوپ ہے
اس کو حضورؐ سایہ رحمت عطا کریں
ادب حضورؐ کا رحمت کا اک سمندر ہے
ادب میں ڈوب کر کیسے کھلیں میری آنکھیں
مدینے کی ہواؤ! میں ہوں برگ خشک کی صورت
اڑا لے جاؤ مجھ کو میں بھی دیکھوں باغ رحمت کا
جولانگہ حیات میں اس کائنات میں
بہتی ہے کس طرح سے وہ رحمت نہ پوچھیے
اس پہ قربان یہ ہے ان کی تمنا کا فروغ
یہ تمنا مجھے رحمت کی ردا لگتی ہے
مل جائے جو لقا کا شرف آنکھ وا نہ ہو
دل کی نگاہ مظہرِ رحمت پہ وا رہے
تمناؤں کے پھولوں کی نکہتیں ہر قلبِ مومن میں مچلتی رہتی ہیں۔ پھر آروزئے قلب و نظر میں جو سحر گل کی خوشبو بھی مہکتی رہتی ہے۔ ان تمناؤں میں وہ نور و سرور ہے کہ انسانیت ہر لمحہ اس کی تلاش میں رہتی ہے کیونکہ وادی کاظمہ، شہرِ سید ثقلین ﷺ اور چمن زارِ مدینہ میں پہنچنے کی تڑپ بے قرار رکھتی ہے، حسن و جمالِ حدیقہ رحمت میں پذیرائی کی خواہش و روضہ رسول ﷺ کے گنبدِ خضریٰ کے انوار سے آنکھوں کو منور کرنے کی تمنا ہر انسان کو شعلہ بار رکھتی ہے۔ خیالات کا یہ کارواں صدیوں سے رواں دواں ہے۔ شعرائے مدحت کے نغمات میں کیفیت حضوری اور فرطِ اشتیاق کی بے قراری اپنے اثرات کو آشکار کرتی رہتی ہے۔ کونسا نعت نگار ہے جو آرزو کا کیفِ سرمدی نہیں رکھتا۔ تمناؤں کے گلہائے رنگا رنگ کی سرسبز وشاداب وادی نہیں رکھتا۔ جناب عزیز دباغ نعت کے اس طلسماتی دائرے میں روحانی رعنائی کی درخشندگی رکھتے ہیں، کیسی کیسی بلیغ و وقیع آرزوئیں ان کی عقیدتوں کے پھولوں میں مہکتی ہیں۔ بہار کے کون کون سے لمحے ہیں جو عطر بیز نہیں۔ کون کون سے وہ نغمے ہیں جو لطف انگیز نہیں، کہیں وہ گنبدِ خضریٰ کے جمال میں کھوئے ملتے ہیں اورکہیں وہ احساس قرب میں تڑپتے ہوئے ملتے ہیں۔ اس موضوع کے چمن میں نرم و نازک خیالات کے دل کش پھول مہکتے ہیں پھر جذبوں کی فراوانی ان کے اشعار کو عشق و محبت کے جلوؤں سے جگمگاتی ہے۔ البتہ کہیں کہیں قلبی چاہتیں حدود سے تجاوز کر جاتی ہیں۔ مجموعی طور پر اس مضمون میں پر کیف تمنائیں ہیں۔
جلو میں ہوں میرے شمس و قمر مدینے کے
کچھ ایسی گردش لیل و نہار ہو جائے
جا کے جو عرض کرے روضہ انور پہ سلام
جالیاں چوم کے لہراتی ہوا یاد آئے
دل نہاں خانہ انوار حرم بن جائے
جب مجھے گنبدِ خضریٰ کی ضیا یاد آئے
نقش میری جاں پہ ہے صبح مدینہ کی گھڑی
پھوٹتی ہیں اس سے روشن ساعتیں شام و سحر
صبح و مسا نظر میں درِ مصطفےؐ رہے
ہر وقت میرے سامنے انؐ کی رضا رہے
دل و نگاہ مدینہ بنائے رکھے ہیں
ان اہلِ نعت کو فکرِ سفر نہیں ہوتا
جب روح تڑپنے لگتی ہے عشاق مدینے جاتے ہیں
پلکوں پہ چراغاں ہوتا ہے دل درد کے دوہے گاتے ہیں
صبا لائی ہے طیبہ سے نوید جرعہ و تسکین
میں جاؤں گا مدینے میں پیوں گا جام سیرت کا
وہ پوری نعت جس کی ردیف ’’جاکر مدینے میں‘‘ ہے، حضرت عزیز کی تمناؤں کا مرقع ہے جس میں ریگ زار کاظمہ کی چمک دمک اور گلشنِ جمال کے پھولوں کی مہک ان کے تصورات کے چراغ جلائے ہوئے ہے۔ آرزوئیں ضیا بار ہوتی ہیں، خواہشات کی ادائیں بے قرار ہوتی ہیں۔گنبدِ خضریٰ پر کبوتروں کی اڑانیں پُر بہار ہوتی ہیں، یہاں تک کہ صحابہ کرام l کی درود و سلام کی محفلوں کی یادیں۔ مدحت کی کھجوریں بانٹتے اصحاب کی عقیدتیں، اپنے بچوں کے دکھ درد اور احباب کے غم و الم کی سکینت کی دعائیں بلند ہوتی ہیں، ایک سوز و گذار کی فضا ہے، تمناؤں کی انتہا ہے۔ اس نعت کا مطلع اور مقطع درج ہے، نظم کو خود گنگنائیے۔
مطلع
دعا ہے تا دمِ آخر رہوں جا کر مدینے میں
ثنائے پیکرِ رحمت کروں جا کر مدینے میں
مقطع
عزیز ان کی رضا کا غم ہے وہ راضی خدا راضی
میں توبہ کی دعا کرتا رہوں جا کر مدینے میں
اسی طرح ایک اور آزاد نظم ’’مدینہ پاک کو جانے کی خواہش‘‘ بھی جناب شیخ عبدالعزیز کے دل کی دھڑکنوں، روح کی چاہتوں اور محبت کی ضیاؤں سے منور ہے۔ تصورات کی دنیا روح پرور ہے۔ درود و سلام کی فضا معطر ہے۔ اپنی اجنبیت پر اور گناہوں کی شرمساری کی یاد دوبھر ہے۔ اسلوب کی انفرادیت خیال و فکر کی ندرت اور جذباتِ قلبی کی نفاست تاثیر تمنا کا حقدار ہے۔ اسے قلبی وارادات بنائیے اور خط اٹھائیے۔
حقیقت یہ ہے کہ نعت حضرت عزیز کی زندگی کا اثاثہ ہے، ’’مطافِ نعت‘‘ میں مدحت کی
شادابیاں، عقیدت، مخزنِ خلق عظیم، حضور نبی رحمت ﷺ کی دلداریاں، ابدتاب صداقتیں عطا
کرتی ہیں۔ ان کے احساسات و جذبات میں نعت کا جمال رچا بسا ہے۔ بلکہ کشتِ نعت میں سدا
بہار گلاب مسکراتے ہیں۔ عشق و محبت کے گلزار پر سحابِ رحمت کے شبنمی قطرات برساتے ہیں
اور عظمت کے شہاب جگمگاتے ہیں۔ ان کی نواؤں مہکتی شبوں کی دعائیں ہیں۔ دشتِ دل میں
عشق و محبت کی صدائیں ہیں اور فکر وفن میں رنگین ردائیں ہیں۔ جدید نعت کے حسین و جمیل
استعارے ’’مطاف نعت ‘‘ میں زرنگار ہیں اور موتیوں کی طرح دمکتے الفاظ اشعار میں ضیا
بار ہیں۔
وہ کہتے ہیں:
شاخ جاں پر نعت کی کلیاں کھلیں شام و سحر
روح کی پہنائیاں مہکتی رہیں شام و سحر
بہارِ نعت ہے لوگوں کو آشتی کا پیام
کہ اس نگر میں کوئی فتنہ گر نہیں ہوتا
بہشتِ نعت میں رہتے ہیں اہل خلق و وفا
جفا شعار کا اس میں گزر نہیں ہوتا
شبابِ نعت ہے حبِ نبیؐ میں کھو جانا
یہ وہ قیام ہے جس میں حضر نہیں ہوتا
فروغِ نعت کہ جینے کی آرزو ہے عزیز
کرو کہ جوش جنوں بے ثمر نہیں ہوتا
یہ ساری نعت عزیز کے تصورِ نعت کی ترجمان ہے، ویسے بھی ان کی روح میں نعت رچی بسی ہے، اسی لیے تو اپنے کاسہ دل کو منور رکھتے ہیں۔
زرِ ثنائے نبیؐ کاسہ سخن میں ہے
نزولِ آیہء صدا انبساط فن میں ہے
عطر وگلاب و عنبر و لوبان و عود سب
کرتی ہیں ساری خوشبوئیں مدحت رسولؐ کی
جو ہو حضورؐ سے نسبت تو نعت ہوتی ہے
ملی ہو آپؐ کی شفقت تو نعت ہوتی ہے
نعت پڑھتی رہتی ہیں خوشبوئیں مدینے کی
نعت سے معطر ہیں وسعتیں مدینے کی
عزیز لکھتی ہے خوشبو چمن میں حرف نجات
گلوں کا جب ہو چراغاں تو نعت کہتا ہوں
نعت کی بہار کے جھونکے، جھومتے اور لہلہاتے دیکھنے ہوں تو ’’مطاف نعت کی نظم‘‘ نعت کہنا تو پھولوں سے سیکھیے کوئی‘‘ دل کی آنکھوں سے پڑھیے۔ جذبات کی لہریں بحر خیال میں موجزن ہیں۔ ایک ولولہ، ایک جوش ہے جو رواں دواں ہے۔ محبت کے نغمے گونجتے ہیں۔ کہسارِ تصور میں آبشار یں ہیں کہ گاتی چلی جاتی ہیں۔ گلشن مدحت میں خوشبو سے لبریز ہوائیں مسحور کرتی چلی جاتی ہیں۔
عشق و عقیدت کی صدائیں، غم، سحر کی ندائیں دلِ شاعر کو معمور کیے جاتی ہیں۔ سازِ فطرت کی جھنکار میں حسنِ اظہار کر ترنم ریز کرتی چلی جاتی ہیں۔ نعت کی کلیاں ہونٹوں پر چٹکتی چلی جاتی ہیں۔صٖٖفیران خوش گلو کی مد بھری تانیں تڑپتی چلی جاتی ہیں۔ غمِ رسول ﷺ کی تمنائیں پلکوں کی منڈیروں پر آنسوؤں کے چراغ جلائے چلی جاتی ہیں اور یہ حسنِ نعت کا نور حضرت عزیز کے اسلوب کو قوسِ قزح کے رنگ عطا کیے چلا جاتا ہے۔ کیف و سرور، سوز و گذار، قلبِ عزیز نعت کی پہچان بنتا چلا جاتا ہے۔ ایمانیت کی بہار، رمزیت کانکھار طرزِ ادا کی پاکیزگی کا عرفان بنتا چلا جاتا ہے۔ یہ عطاء ربِ غفور ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کے عشق مخزن اسرارِ ربانی کو اخروی تجلیات سے ثمربار کرے۔
گوہر ملسیانی